ColumnRoshan Lal

جوبائیڈن اور ہمارا ایٹمی اسلحہ .. روشن لعل

روشن لعل

 

امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ دنوں پاکستان کے ایٹم بم کے متعلق جو کچھ کہا اس پر یہاں سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ جوبائیڈن کی باتوں پر نہ صرف ہرمکتبہ فکر کی طرف سے تشویش ظاہر کی گئی بلکہ وزارت خارجہ کی طرف سے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے جس قدر ممکن تھا سخت رد عمل کا اظہار بھی کیا گیا۔ اس سلسلے میں صرف وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ہی احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا بلکہ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے بھی حکومتی تحفظات سے آگاہ کیا گیا۔ ہمارے ایٹم بم کے متعلق جو بائیڈن کے بیان پر رد عمل اور تحفظات کا اظہار محض سرکاری ہی نہیں بلکہ غیر سرکاری سطح پر بھی دیکھنے میں آیا۔ جو بائیڈن کے بیان پر رد عمل ظاہر کرنے والے کچھ لوگ تو شاید ان کی باتوں کے سیاق و سباق سے آگاہ تھے مگر اس معاملے میں عام لوگوں کی آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو بائیڈن نے اپنی تقریر کے دوران پہلے توپاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا اور پھر اپنا یہ موقف اس بات سے جوڑا کہ پاکستان اور ایٹمی اسلحہ میں ہر گز کوئی مطابقت نہیں ہے۔ جو بائیڈن نے جو کچھ کہا اس سے کئی لوگوں نے یہ اخذ کیا کہ شاید ایٹمی اثاثے رکھنے کا ہمارا نظام بے ربط ہے مگر اس خیال کی بجائے یہ بات زیادہ درست لگتی ہے کہ امریکی صدر کو ہمارے ملک کی عمومی حالت اور ایٹمی اسلحہ میں کوئی مطابقت نظر نہیں آتی اور اسی وجہ سے انہیں پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک لگتا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کے متعلق باتیں کرتے ہوئے امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ تیزی سے تبدیل ہو رہی دنیا میں مختلف ممالک نئے اتحاد بنانے کے متعلق سوچ رہے ہیں۔ ان کے مطابق ا س منظر نامے کا یقینی سچ یہ ہے کہ دنیا امریکہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ بائیڈن نے ایک طرف تو یہ کہا کہ یہاں بہت کچھ دائو پر لگا ہوا ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہہ دیا کہ ان حالات میں امریکہ دنیا کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے اس مقام تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے جس تک یہ پہلے کبھی نہیں پہنچ سکی۔
جوبائیڈن نے جس سیاق و سباق میں پاکستان کو ایٹمی اسلحہ رکھنے والا دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیااسے پاکستان نے بلاجواز قرار دے کر احتجاج کیا۔ گو کہ پاکستان نے اپنا احتجاج انتہائی احتیاط سے درج کرایامگر اس احتجاج کواس لیے غیر معمولی قرار دیا جاسکتا ہے کیو نکہ یہ احتجاج اس امریکہ سے کیا گیا جو اس وقت روس اور چین ہی نہیں بلکہ سعودی عرب کو بھی آنکھیں دکھا رہا ہے۔ اس غیر معمولی احتجاج کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل کا یہ باضابطہ بیان سامنے آیاکہ ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے سلسلہ میں امریکہ کو پاکستان کے عزم اور صلاحیت پر مکمل اعتماد ہے۔ اس حوالے سے ایک امریکی سینیٹر کرس وان ہولن نے بھی کہا کہ صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کے متعلق جو بیان دیا وہ بے ساختہ تھا اور اس بیان سے پاکستان نے جو کچھ اخذ کیا وہ بائیڈن کا مطلب ہر گز نہیں تھا۔ پاکستانی رد عمل کے جواب میں امریکہ نے جو وضاحت پیش کی اسے پاکستان میں خارجہ پالیسی کی فتح قرار دے کر اگر اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے تو اس احساس اور رویہ کو کسی طرح بھی غیر ضروری نہیں کہا جاسکتا ہے۔
امریکی وضاحت پر پاکستان کا اطمینان اپنی جگہ درست ہے مگر اس معاملے کو دیکھنے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ امریکہ کی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے پہلے سے طے شدہ پالیسی کے اندر دیکھا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی ترجمان نے یہ تو کہہ دیا کہ انہیں ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے سلسلہ میں پاکستان کے عزم اور صلاحیت پر اعتماد ہے مگر صدر جوبائیڈن کا بیان واپس لینے کا عندیہ کہیں نہیں دیا۔ اگر امریکی ترجمان جوبائیڈن کا بیان واپس لینے کا عندیہ دیتا تو اس کا یہ کہنا ایک طرح سے اس بات کا اعلان ہوتا کہ امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے ۔ یہاں یہ باتیں یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ امریکہ کی پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کے متعلق پالیسی ہر گز تبدیل نہیں ہوئی اور جوبائیڈن کا ہمارے ایٹمی اسلحہ سے متعلق بیان ہر طرح سے طے شدہ امریکی پالیسی کا عکس تھا۔ لہٰذا یہ بات بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ امریکی صدر نے پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کے متعلق جو کچھ کہاوہ ان کا بے ساختہ پن نہیں تھا کیونکہ ان کا بیان طے شدہ امریکی پالیسی کے عین مطابق تھا۔
امریکہ شروع دن سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا مخالف رہا ہے ۔ افغان جنگ کے بعدگو کہ امریکہ کو ہمارے ایٹمی پروگرام سے چشم پوشی اختیار کرنا پڑی مگر اس نے اپنے بیرونی امداد کے قانون میں ترمیم کر کے پاکستان کو دی جانے والی امداد اس بات سے مشروط کردی تھی کہ جب تک امریکی صدر یہ سرٹیفکیٹ نہ دے کہ پاکستان ایٹمی اسلحہ کے پھیلائو میں ملوث نہیں ہے اس وقت تک امداد جاری نہیں کی جائے گی۔ پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان کو امریکی صدر کے سرٹیفکیٹ سے مشروط امداد کی شق 1990 تک معطل رہی مگرجونہی افغانستان سے روسی فوجوں کا انخلا ہوا اور امریکہ کو حسب سابق پاکستان کی ضرورت باقی نہ رہی تو معطل شدہ شق بحال اور امریکی امداد بند ہوگئی۔ انڈیا کے بعد جب پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کیے تو امریکہ نے پاکستان پر سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کردیں۔ یہ پابندیاں اس وقت نرم ہوئیں جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو امریکہ کا صف اول کا اتحادی بنایا گیا۔
موجودہ دور میں بظاہر یہ لگتا ہے کہ امریکہ کو اب پھر سے پاکستان کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ پاکستان اب ماضی کی طرح امریکی ضرورت نہیں ہے مگر اس سچ کی طرح یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ امریکہ یہ ہر گز برداشت نہیں کر سکتا کہ ایٹم بم رکھنے والا پاکستان ممکنہ نئے اتحادوں کی صف بندی میں اس کے کسی مخالف اتحاد میں موثر کردار ادکرنے کی کوشش کرے۔ یہاں یہ بات مد نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ جو بائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کے متعلق بیان دینے سے قبل سعودی عرب کو اوپیک کی طرف سے تیل کی پیداوار کم کرنے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اس حوالے سے پاکستان کی طرف سے واضح طور پر امریکہ کے مقابلے میں سعودی عرب کی حمایت سامنے آچکی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اسلحہ سے متعلق جوبائیڈن کے بیان کو ناپسند کیا گیا ہے لیکن فی الحال یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ امریکہ ، پاکستان کو اپنی طے شدہ ایٹمی اسلحہ کی پالیسی کے مطابق ڈیل کرنے کی کوشش کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button