CM RizwanColumn

سانحہ کارساز کی تلخ یادیں .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

سانحہ کار ساز کو 15سال بیت گئے، واقعہ کے ذمہ دار اور قاتل اب تک گرفتار نہیں ہوسکے جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے چند سال بعد ہی جائے وقوعہ پر ایک کروڑ روپے کی لاگت سے اس اندوہناک سانحہ کے شہدا کی یادگار تعمیر کروادی تھی جس پر ہر سال چراغاں اور ہمارے نظام کی بے حسی پر ماتم کر کے گویا ہم اپنا’’ فرض‘‘ادا کر دیتے ہیں۔ یادرہے کہ سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو اپنی جلاوطنی ختم کرکے 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی پہنچی تھیں تو ملک بھر کے عوام کی جانب سے ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ اسی دوران جب ان کا قافلہ رات 12 بجے کے قریب کراچی کی شاہراہ فیصل پر کارساز کے قریب پہنچا تو یکے بعد دیگرے ہونے والے 2 بم دھماکوں میں 177 افراد جاں بحق اور 575 زخمی ہوگئے تھے۔ زخمیوں میں سے بعد ازاں بھی کچھ لوگ شہیدوں میں جا شامل ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے چند ماہ بعد پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو ذمہ داروں کی گرفتاری کی امید روشن ہوگئی تھی تاہم آج تک یہ امید پوری نہیں ہوسکی اور آج تک کوئی بھی حکومت واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ حسب معمول اس سال بھی اس واقعہ کو 15 سال مکمل ہونے پر کراچی شہر میں بڑے بڑے دیوہیکل بل بورڈ لگائے گئے اور مختلف تعزیتی تقریبات منعقد کی گئیں اور بس۔ بینظیر بھٹو نے جن افراد کو اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اس قتلِ عام کا ملزم نامزد کیا تھا ان سے کیا پوچھ گچھ ہوئی آج تک یہ سوال بھی تشنہ تکمیل ہے۔ اس واقعہ سے قبل بینظیر تمام دھمکیوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے وطن واپس پہنچیں تو انہیں خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ استقبال کے لیے اتنا بڑا ہجوم اکٹھا ہو جائے گا۔ سانحہ کارساز کے بہت سے کشتگان جو 18 اکتوبر 2007 کو رزقِ خاک ہوئے تھے۔ وہ جو اپنی قائد کے استقبالیہ جلوس کے ساتھ تھے اور جو اس کے ٹرک کی حفاظت کرتے ہوئے دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے۔ وہ سب جانثار جنہوں نے 18 اکتوبر کو اپنی قائد کے لیے انسانی ڈھال بنا رکھی تھی اور جن کی شہادت کے بعد ان کی قائد مزید دو ماہ اس جہان میں رہی تھیں اور پھر دو ماہ بعد ہی وہ خود بھی ان کے پاس پہنچ گئی تھیں۔ آپ ان میں سے بہت کم لوگ رانا دل میر کو جانتے ہوں گے اور جانتے بھی کیسے ہوں وہ لیڈر تو نہیں تھے۔ ایک سیاسی کارکن تھے اور کارکنوں کو تو گم نامی میں ہی رہنا ہوتا ہے اور پھر خاموشی سے رخت سفر باندھنا ہوتا ہے۔ رانا دل میر پیپلز پارٹی کے ان بہت سے لوگوں میں سے ایک تھے جو 18 اکتوبر 2007 کو کار ساز میں ہونے والے قتل عام میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔ رائوساجد بھی ان کے ساتھ تھے ان دونوں کا تعلق ملتان یا سرائیکی خطے کے دوسرے شہروں سے تھا۔ رائو ساجد اور رانادل میر اس دھماکے میں زخمی ہونے کے بعد کئی روز تک کراچی میں زیر علاج رہنے کے بعد ملتان واپس آئے تھے لیکن بعد ازاں یہ دونوں بھی شہداء میں شامل ہوئے۔ رانا دل میر قادر پور راں میں رہتے تھے۔ انہوں نے دوران علاج صحافیوں کو 18 اکتوبر 2007 کے دلخراش واقعات بھی سنائے تھے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کا ذکر بھی کیا تھا۔ انہیں پارٹی سے کوئی شکوہ تھا نہ انہوں نے نظر انداز کیے جانے کا گلہ کیا تھا۔ بس انہیں دکھ تھا کہ بینظیر بھٹو کے قاتل آزاد کیوں پھر رہے ہیں۔
اس دن کی کہانی بڑی دلخراش ہے جو کہ ایک غیرمعمولی دن تھا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایسے بہت سے دنوں میں سے ایک کہ جو دن امید کی کرن کے ساتھ طلوع ہوتے ہیں۔ اس روز پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئر پرسن اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس آ رہی تھیں۔ تاریخ دوسری مرتبہ اپنے آپ کو دہرانے جا رہی تھی۔ پہلی مرتبہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بینظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد لندن سے وطن واپس آئی تھیں۔ دس اپریل 1986 کو لاہور ایئرپورٹ پر ان کا والہانہ استقبال ہوا تھا۔ لاکھوں افراد اپنی قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ملک بھر سے لاہور پہنچ گئے تھے۔ 21 برس بعد پھر وہی منظر تھا۔ مقام اس مرتبہ لاہور نہیں کراچی تھا۔ عہد ایک اور فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کا تھا اور بینظیر بھٹو آٹھ سالہ جلاوطنی کے بعد دبئی سے کراچی پہنچ رہی تھیں۔ انتخابات کا اعلان ہو چکا تھا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو انتخابی مہم کے دوران شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ جلسوں میں بم دھماکے ہو رہے تھے اور روشن خیال جماعتوں کو انتخابات سے باہر رکھنے کے لیے خودکش بمبار میدان میں آ چکے تھے۔ عام تاثر یہ تھا کہ 1986 اور 2007 کے پاکستان میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ تجزیہ نگار یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت کم ہو چکی ہے۔ 18 اکتوبر سے پہلے ہی ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے قافلے کراچی پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ 11 اکتوبر کی رات سے ہی ٹی وی چینلوں
نے استقبالیہ جلسوں اور کراچی کی شاہراہوں کی براہ راست کوریج شروع کر دی تھی۔ دنیا بھر میں لوگوں کی نظریں ٹی وی سکرینوں پر تھیں۔ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کا لمحہ لمحہ ٹیلی کاسٹ کیا جا رہا تھا۔ دبئی میں روانگی سے قبل بینظیر بھٹو نے اپنے بچوں سے ملاقات کی اور اپنے عقائد کے مطابق آفات سے تحفظ کی ضمانت سمجھا جانے والا امام ضامن بازو پر باندھ کر ایئر پورٹ روانہ ہوئیں۔ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسی طیارے میں موجود تھی جو بینظیر بھٹو کو وطن واپس لا رہا تھا۔ ایک ایک پل دکھایا جا رہا تھا۔ راستے میں انٹرویوز کیے جا رہے تھے اور صحافی تجزیے دے رہے تھے۔ لینڈنگ سے پہلے طیارہ جب کراچی کی سڑکوں کے اوپر سے گزرا تو لوگوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر بینظیر بھٹو کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ طیارہ کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔ ایئرپورٹ سے باہر آنے میں بینظیر بھٹو کو کئی گھنٹے لگ گئے تھے۔ انہیں جلسہ گاہ تک لے جانے کے لیے ایک بلٹ پروف ٹرک تیار کیا گیا تھا جو پیپلز پارٹی کے پرچموں سے آراستہ تھا۔ ٹرک نے سفر کا آغاز کیا۔ رقص کرتے، ڈھول بجاتے، پیپلزپارٹی کے جھنڈے لہراتے کارکن ٹرک کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
کارکنوں کے ایک کفن پوش گروپ نے بینظیر بھٹو کے ٹرک کو حصار میں لے رکھا تھا۔ ان کا تعلق پیپلزپارٹی کی مختلف تنظیموں سے تھا اور یہ کارکن ’’جانثارانِ بینظیر بھٹو‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہ فورس بینظیر بھٹو کی حفاظت کے لیے تیار کی گئی تھی اور اس جلوس میں وہ اپنی قائد کے لیے انسانی ڈھال کا کردار ادا کر رہے تھے۔ پھر کارساز کے قریب وہی ہوا جس کا ڈر تھا اور جس خدشے کا بار بار اظہار کیا جا رہا تھا۔ ایک بجے شب رقص کرتے کارکنوں کے درمیان موت کا رقص بھی شروع ہو گیا۔ یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے۔ 177 کارکن جان کی بازی ہار گئے اور پانچ سو سے زائد رخمی ہو گئے۔ کشتگان اور زخمیوں میں بڑی تعداد ان جانثاروں کی تھی جو بے نظیر کے ٹرک کے گرد ڈھال بن گئے تھے۔ بینظیر بھٹو اس سانحے میں محفوظ رہیں۔ جلسہ گاہ کی طرف جانے والوں کو ایمبولینسوں کے ذریعے ہسپتال بھیج دیا گیا۔ یہ ایک پیغام تھا بینظیر بھٹو کے لیے، یہ انتباہ تھا کہ وہ الیکشن سے دور ہو جائیں لیکن بھٹو کی بیٹی نے ڈرنے کی بجائے انتخابی مہم جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ دو روز بعد ہی وہ سکیورٹی کی پروا کیے بغیر زخمی کارکنوں کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچ گئیں۔ بینظیر بھٹو نے اگلے روز پریس کانفرنس میں کہا کہ انتظامیہ انہیں سکیورٹی دینے میں ناکام ہو گئی ہے۔ انہوں نے غیرملکی ماہرین سے اس سانحے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا مگر اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔ حکومت کی جانب سے مشتبہ حملہ آور کا خاکہ بھی جاری کیا گیا مگر بعدازاں تحقیقات آگے نہ بڑھ سکیں۔ اس سوال کا جواب بھی معلوم نہ ہوسکا کہ جلوس کے دوران سٹریٹ لائٹس کیوں بند کر دی گئی تھیں۔ اس خط میں بینظیر بھٹو نے پرویز مشرف کو ملزم نامزد نہیں کیا تھا اور شاید اس لیے نہیں کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں یہ تحقیقات ممکن ہی نہ ہوتیں۔ یا شاید اس لیے کہ پرویز مشرف کو تو انہوں نے اپنے قتل کا ملزم نامزد کرنا تھا۔ کئی برس بیت گئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنا پانچ سالہ اقتدار گزار کے رخصت بھی ہو گئی۔ اب پندرہ سال بیت گئے ہیں مگر اس سانحے کے مجرموں کا سراغ نہیں مل سکا۔ جنہیں بینظیر بھٹو نے نامزد کیا تھا۔باقی رہے رانا دل میر تو وہ اب سوال کرنے کےلیے موجود ہی نہیں، لیکن اگر ہوتے بھی تو آج کی قیادت کی پالیسی اور سیاسی حکمت عملی دیکھ کر خاموش ہی رہتے کہ سیاسی اشرافیہ کی نظریاتی اساس کچھ بھی نہیں ہوتی اور سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button