ColumnZameer Afaqi

ضمنی الیکشن،کون جیتا کون ہارا ؟ .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

ملک بھر کے آٹھ حلقوں سے چھ پر عمران خان کے جیتنے پر تجزیہ نگار جو بھی کہتے رہیں کہ یہ عمران کے بیانیے کی جیت ہے ،لیکن یہ بات سچ ہے کہ اس وقت ملک میں شور شرابے ،بد تمیزی اور بد تہذیبی کے کلچر کی جے جے کار ہے عوام کے پاس کوئی ویژن نہیں ہے یہ مولا جٹ ٹائپ لوگوں کو پسند کرتی ہے جب کہ شریف اور تحمل مزاج آدمی اکثریتی عوام کی نظروں میں جگہ نہیں پاتا ۔ باقی رہ گئی جیت ہار تو اس کی ایک وجہ اور بھی ہے حکومت کا عوام سے لاتعلق ہونا اور نون لیگ کا موثرانتخابی مہم نہ کرنا، لیگ نون نے پنجاب میں مجموعی طور پر پانچ نشستوں پر ضمنی انتخاب میں حصہ لیا اور چار نشستوں پر اسے شکست ہوئی۔ فیصل آباد کا وہ علاقہ جو تاریخی طور پر مسلم لیگ نون کا گڑھ رہا ہے، وہاں نواز شریف کے رشتہ دار عابد شیر علی بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ مقامی ووٹروں کے مطابق عابد شیر علی لندن میں میاں نواز شریف کے پاس اور اپنے حلقے کے عوام سے دور رہے اور اسی لیے رائے دہندگان نے انہیں مسترد کر دیا۔ فیصل آباد میں ایسے بندے کو ٹکٹ دینے کی کیا ضرورت تھی جو چار سال کاعرصہ اپنے حلقے سے باہر بلکہ بیرون ملک گزار کر آیا ہو جس نے نہ ہی حلقے کے لوگوں کی خدمت کی اور نہ کوئی را و رسم رکھا اب نون لیگ بھٹو کی ستر والی دہائی کی پارٹی تو ہے نہیں کہ کھمبا بھی کھڑا کر دیا جاتا تو اسے ووٹ مل جاتا تھا ۔اسی طرح ننکانہ صاحب کا حال تھا ،جہاں ایک نوجوان باہمت خاتون نے اپنے بل بوتے پر عمران خان کو ٹف ٹائم دیا جبکہ اسے جس قسم کی حمایت چاہیے تھی وہ موجود نہیں تھی اور پھر پنجاب کی موجودہ صورتحال میں انہیں جوڑ توڑ کا تجربہ بھی نہیں تھا جبکہ نون لیگ کی کسی اہم شخصیت نے ان آٹھوں حلقوں میں جاکر خطاب بھی نہ کیا ،نہ حمزہ نظر آئے نہ بی بی مریم، بلکہ پاسپورٹ ملتے ہی وہ والد سے ملاقات کو لندن چلی گئیں حالانکہ ان حالات میں انہیں ایک موثر کمپین کی قیادت کرنی چاہیے تھی۔اب نون لیگ جو مرضی جواز تراشتی رہے جیت بہر حال خان کی ہی ہوئی ہے خواہ سیٹیں گنوا کر اور اپنی ہی چھوڑی سیٹوں پر، نون لیگ کو اس ہار سے سبق سیکھنا چاہیے۔ دوسری جانب پا کستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو شکست دی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کراچی میں ملیر کے علاقے سے جس واحد نشست سے ہارے، وہاں پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ نے انہیں دس ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کی دو سیٹوں ملتان اور کراچی میں جیت سے اس کی قومی اسمبلی میں بھی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے اب اس کے دو وفاقی وزیروں کا اضافہ اسے مزید تقویت دے گا۔
اب آتے ہیں ووٹنگ کے عمل کی طرف ان 8 حلقوں میں قریباً 28 لاکھ ووٹ رجسٹرڈ ہیں اور قریباً 23 لاکھ افراد نے ان انتخابات اور امیدواروں پر عدم اعتماد کا اظہارکیا ہے جس پر کہیں کوئی تجزیہ سامنے نہیں آرہا کہ یہ کیا اور کیوں ہوا ،ووٹر کی اتنی بڑی تعداد نے ووٹ کیوں نہیں ڈالا، عمران خان بھی انتہائی کم ووٹ ہی حاصل کر سکے مگر ان کے ورکرز نے انتخابی عمل میں حصہ لیا اگر دوسری جماعتیں بھی انتخابی عمل میںحصہ لیتیں اورووٹر کو گھروں سے نکالنے کے لیے کوشش کرتیں تو صورت حال مختلف ہوتی اب سر اور لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ ۔
چھ سیٹیں جیتنے کے بعد بھی عمران خان یا ان کی پارٹی کی پوزیشن میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا بلکہ قومی خزانے اور وقت کا ہی نقصان ہوا ہے، آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ دوہری نشست نہیں رکھی جاسکتی عمران خان قومی اسمبلی کی صرف ایک ہی سیٹ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں، باقی تمام انہیں خالی کرنا پڑیں گی۔ پی ٹی آئی بے شک وقتی جشن منا لے مگر اسے سمجھنا ہو گا کہ 6 نشستیں مزید خالی ہوں گی ان پر دوبارہ انتخاب ہو گا اور اگر نون لیگ نے انتخابی عمل کو سیریس لے لیا تودو تین سیٹیں پی ٹی آئی کی مزید کم ہو سکتی ہیں، اس وقت خان کو آٹھ نشستوں پر اکیلے لڑنے کا سواد آئے گا۔ اس کے علاوہ کچھ اور نشستیں خالی ہونی والی ہیں کئی ارکان عدالت جاکر کہہ چکے ہیں کہ ہم نے تو روایتی طور پر پارٹی کو استعفیٰ دیا تھا اور ہم اب بھی رکن ہیں اگر ان کے استعفے منظور ہو جاتے ہیں تو پھر کیا ہو گا پھر الیکشن اور نتیجہ کیا حق میں آئے گا؟
اگر ہم ہار جیت کے حوالے سے تجزیہ نگاروں کی بات کریں تو ان کہنا ہے کہ نون لیگ نے ان انتخابات کے ملکی سیاست پر اثرات کو کم سمجھتے ہوئے بھرپور انتخابی مہم چلانے سے گریز کیا۔ نون لیگ نے اپنے حلقوں میں کوئی بڑا جلسہ نہ کیا۔ مریم نواز چند دن بعد بھی لندن جا سکتی تھیں، نواز شریف ویڈیو لنک کے ساتھ بھی ووٹروں سے مخاطب ہو سکتے تھے۔ ‘اور تو اور، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی سمیت کوئی مرکزی لیڈر بھی اس انتخابی مہم میں کہیں نظر نہ آیا۔ اس کے ساتھ ہی مہنگائی بھی ایک وجہ رہی پچھلے چھ ماہ کے دوران مہنگائی، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ووٹروں نے لیگ نون کی حکومت پر ووٹ کے زریعے اپنے غصے کا اظہار کیا لوگ موجودہ وفاقی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ۔
آخری بات یہ کہنا ہے کہ عمران خان مقبولیت کی بلندیوں پر ہیں،درست نہیں کیونکہ مد مقابل پارٹیوں نے اپنی سیاسی اننگ کھیلی ہی نہیں اگر وہ میدان میں ہوتے جیسا کہ نہیں تھے اور وہ سوشل میڈیا کا استعمال ڈھنگ سے کرنے کا فن جانتے جیسا کہ خان کی ٹیم کرتی ہے اور کوئی مضبوط بیانیہ بنا پاتے تو صورت حال مختلف ہوتی یہ بات بہر حال نون لیگ، پی پی پی اور دیگر جماعتوں کے سوچنے کی ہے کہ آئندہ انہیں کیا طرز عمل اختیار کرنا ہے، دوسری اہم بات موجودہ صورت حال میں ملک میں سیاسی استحکام نظر نہیں آرہا اس سے عوام کے اندر مزید بے چینی پیدا ہو گی، مہنگائی کا گراف کم نہ ہوا تو اس کا اثر بھی حکومت کی کارکردگی پر پڑے گا حکومتی اتحاد کو اس پر بہر حال غور کرنا ہو گا عوام کی بے چینی کو ختم کئے بنا وہ عوام سے کسی ہمدردی کی توقع نہ رکھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button