ColumnRoshan Lal

میڈیا کی ایک اونچی دکان۔۔۔۔ .. روشن لعل

روشن لعل

 

’’ اونچی دکان‘‘ لکھنے کے بعد اگر اس کے ساتھ ’’پھیکا پکوان‘‘ کا اضافہ نہ کیا جائے تو بات ادھوری سی لگنے لگتی ہے۔۔۔۔۔ ۔ لفظ ’’ میڈیا‘‘ لکھنے کے بعد اگر اس کے ساتھ ’’ اونچی دکان ، پھیکا پکوان‘‘ ضرب المثل مکمل لکھ دی جائے تو پھر بھی یوں لگتا ہے جیسے مزید کچھ کہنا باقی رہ گیا ہے ۔ اس سلسلے میں جو کچھ مزید کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے میڈیا بازار میں چینلوں کی شکل میں نئی دکانوں کا اضافہ تو ہورہا مگر ہر چینل اونچا بننے کی خواہش کے باوجود اونچی اڑان بھرنے کی بجائے بھیڑ کی چال چلنے پر اکتفا کر رہا ہے ۔ مختلف حصوں میں تقسیم میڈیا کے وسیع احاطے میں ’’ اونچی دکان پھیکا پکوان ‘‘ کی ضرب المثل ٹی وی چینلوں پر سب سے زیادہ صادق آتی ہے۔یہاں ہر نیا اور پرانا ٹی وی چینل سب سے بڑی دکان ہونے کا دعوے دار ہے ۔ اس حوالے سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہر ٹی وی چینل کے بڑی دکان ہونے کے دعوے پرچا ہے کوئی یقین نہ کرے مگر یہ بات قریباً سب ہی ماننے کو تیار نظر آئیں گے کہ ان تمام دکانوں کے پکوان کم و بیش ایک جیسے پھیکے ہیں۔ میڈیا بازار کی ایک بہت اونچی سمجھی جانے والی دکان کا پکوان بہت پھیکا ہونے کا احساس 8 اکتوبر 2022 کو ہوا۔
کون بھول سکتا ہے کہ 8 اکتوبر اس تباہ کن زلزلے کی یاد دلاتا ہے جس نے سال 2005 میں کشمیر اور خیبر پختونخوا میںبدترین تباہی برپا کی تھی۔ 8 اکتوبر 2022 کو یہ سوچ کر مختلف چینل دیکھنے کے لیے بار بار ٹی وی ریموٹ استعمال کیا کہ شاید کہیں کوئی ایسی ر پورٹ نظر آجائے جو خاص طور سے ان زلزلہ متاثرین پر بنائی گئی ہو جو گزشتہ سترہ برس سے اپنی بحالی کے نام پر شروع کئے گئے نیو بالا کوٹ سٹی پراجیکٹ مکمل ہونے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ8 اکتوبر 2005 کے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے مشرف حکومت نے نیو بالا کوٹ سٹی ہائوسنگ پراجیکٹ کا اعلان کرتے ہوئے اس کیلئے نہ صرف 15000 کنال زمین الاٹ کی بلکہ 13 بلین روپے کے فنڈ بھی مختص کیے تھے۔ یہ فنڈ کئی بلین ڈالر کی اس بیرونی امدادکا مرہون منت تھے جو عالمی براداری نے ہمیں زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے بطور عطیہ دی تھی ۔8 اکتوبر کو جتنے بھی ٹی وی چینل دیکھے ان میں سے صرف ایک دو نے اپنی خبروں میں نیو بالاکوٹ سٹی کا سرسری ذکر کیا جبکہ اکثریت نے اتنی سی زحمت کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ ملک کا سب سے بڑا میڈیا ہائوس بنانے کی دعویداری کرنے والوں کے ٹی وی چینل کا یہ حال
رہا کہ 8 اکتوبر کو جب پوری دنیا ہمارے 17 برس پرانے زلزلہ متاثرین کا ذکر کر رہے تھی اس وقت اس چینل سے کراچی کی حالیہ بارشوں کے دوران ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی ایک خبر بار بار نشرکی جارہی تھی۔ کراچی کی ٹوٹی سڑکوں کی خبر 8 اکتوبر کو اس چینل سے کل کتنی بار نشر ہوئی اس کی حتمی گنتی تو نہیں بتائی جاسکتی ، البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے اس دن مختلف اوقات میں راقم کو یہ خبر پانچ مرتبہ سننے پر مجبور ہونا پڑا۔ کراچی کی ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی خبر سننے کو مجبوری اس لیے کہا گیا ہے کہ اس روز خواہش صرف زلزلہ متاثرین کے متعلق کچھ سننے کی تھی۔ اس خواہش کے پیدا ہونے کی وجہ مریکی رہاست لوزیانا (Louisiana) میں گزشتہ برس 29 اگست کو آنےوالے بدترین سمندری طوفان آئیڈا (Ida) سے برپا ہونے والی تباہی کا ایک سال مکمل ہونے پر متاثرین کی بحالی سے متعلق نشر ہونے والی خبریں بنیں۔ان خبروں کو سننے کے بعدیہ جاننے کی خواہش پیدا ہوئی کہ ہمارے ملک میں سترہ برس قبل آنے والے زلزلہ کے متاثرین کس حال میں ہیں۔یاد رہے کہ آئیڈا سمندری طوفان کی وجہ سے ریاست لوزیانہ کے ساحلی علاقوں اور جزائر میں خاص طور پر بجلی کی فراہمی ، انٹرنیٹ،ذرائع آمدورفت ، سڑکیں ، پانی کی فراہمی و نکاسی کا نظام اور سرکاری و غیر سرکاری
عمارتیں بہت بری طرح سے تباہ ہوئی تھیں۔ آئیڈا کی وجہ سے تباہی کا شکار ہونے والی ریاست لوزیانہ میں بحالی کے کاموں کے لیے امریکہ کو نہ تو بیرونی امداد کی ضرورت تھی اور نہ ہی اسے وسائل کمی تھی ،مگر اس کے باوجود وہاں بحالی کا کوئی بھی کام طے شدہ مدت میں مکمل نہیں ہو سکا تھا۔ آئیڈا نے سب سے زیادہ بجلی کی پیداوار اور فراہمی کے نظام کو متاثر کیا تھا۔ کئی متاثرہ علاقوں میں تو بجلی چند ہفتوں میں ہی بحال کردی گئی تھی مگر کچھ جزائر میں بجلی کی فراہمی پانچ ماہ بعدہو سکی تھی۔ اسی طرح سڑکوں اور مفاد عامہ سے وابستہ دوسرے تعمیراتی ڈھانچے کی بحالی بھی مہینوں بعد ممکن ہو سکی تھی۔ آئیڈا طوفان کو آئے ہوئے ایک سال مکمل ہونے کے بعد بھی تمام تر متاثرہ لوگوں کے گھروں کا تعمیراتی کام مکمل نہیں ہوسکا۔
سطور بالا میں قدرتی آفات سے متاثرہ تین علاقوں کے ساتھ ایک ایسے پاکستانی میڈیا ہائوس کی طرف بھی اشارہ کیا گیا جو ملک کا سب بڑا ٹی چینلرکھنے کے زعم مبتلا ہے۔ جن تین آفت زدہ علاقوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے دوہمارے غریب ملک پاکستان اور ایک دنیا کے امیر ترین ملک امریکہ میں ہے ۔ پاکستان کے متعلق یہ بات کوئی راز نہیں کہ یہاں عوام کی روزمرہ بنیادی ضرورتوں کی فراہمی اور عام مسائل کے حل کے لیے بھی وسائل ناکافی ہیں اور اگر کسی قدرتی آفت کی وجہ سے کوئی تباہی برپا ہو جائے تو ہماری حکومتوں کو بیرونی دنیا کے سامنے امداد کے لیے ہاتھ پھیلاناپڑتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ ہے جس کے پاس نہ صرف کسی قدرتی آفت کا شکار اپنے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کافی وسائل ہیں بلکہ کوئی آفت نازل ہونے پر وہ پاکستان جیسے ملکوں کی بھی دل کھول کر مدد کرتا ہے۔ تمام تر وسائل کی دستیابی کے باوجود بھی امریکہ میں سمندری طوفان آئیڈا سے متاثرہ ریاست لوزیانہ میں پیدا ہونے والے تمام تر مسائل ایک سال کے عرصہ میں بھی حل نہیں ہوپائے ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملک امریکہ کی اس مثال کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کا سب سے بڑا ٹی وی چینل رکھنے کے زعم میں مبتلا ایک میڈیا ہائوس دن رات اس قسم کی خبرین نشر کرتا رہتا ہے کہ صرف ڈیڑھ مہینہ قبل قدرتی آفت کی شکل میںبرسنے والی تاریخ بد ترین بارشوں کی وجہ سے کراچی کے تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی فوری تعمیر و مرمت کیوں نہیں ہو سکی۔یہ مشق اس بڑے ٹی وی چینل نے 8 اکتوبر کے اس دن بھی انتہائی شدت کے ساتھ جار ی رکھی جو دن نہ صرف ملک کے بد ترین زلزلے سے تباہ ہونے والے لوگوں کو یاد کرنے کا بلکہ یہ بتانے کا دن بھی تھا کہ سترہ برس گزر جانے کے باوجود بھی زلزلہ متاثرین کے لیے نیو بالا کوٹ سٹی پراجیکٹ کیوں مکمل نہیں کیا جاسکا۔ اس ٹی وی چینل کا یہ رویہ دیکھ خیال آیا میڈیا بازار میں سب سے اونچی دکان رکھنے کے دعویداروں کے پکوان سونے چاندی کے ورق لگانے کے باوجود بھی پھیکے ہی رہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button