ColumnJabaar Ch

فتنہ! .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

جوبھی لغت دیکھیں گے وہاں فتنہ کے معنی اور مفہوم میں فساد اورتخریب کاری ملے گی۔فتنہ کے معنی میں دنگا فساد،لڑائی جھگڑا،سازشیں،بے امنی کی ترغیب،دکھ دینا،تنگ کرنا اور تختہ مشق بنانا کے ہی ہیں۔فتنہ ایک منفی جذبہ ہے جس میں تخریب ہے ،منظم تباہی ہے،نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی ہے۔آسان لفظوں میں سمجھنے کیلئے یہ سمجھ لیں کہ شیطان کو بھی فتنہ کہا جاتا ہے۔اب شیطان کیا کیا کرتا ہے اس کو دیکھ لیں آ پ کو فتنہ اور اس کو پھیلانے والوں کی بخوبی سمجھ آجائے گی۔کسی انسان کے اندرفتنہ پیدا ہوجائے تو اس کا دل سخت ہوجاتا ہے۔وہ انتہا کا لالچی اورخود غرض بن جائے گا۔اس کی عبادات ظاہری طورپرتو زبردست دکھاوا لیکن اصل میں لذت سے خالی۔کسی کے گھر میں فتنہ پیدا ہوجائے تو پھر وہاں لڑائی جھگڑے اور نااتفاقی کا ڈیرہ۔اگر کسی معاشرے میں فتنہ پیدا ہوجائے تو معاشرہ تباہی کا شکار۔وہ ملک طوائف الملوکی کی نذر،نظام مملکت بگاڑ کا شکار،اقتدار کے لیے سازشیں ہی سازشیں،ترقی تنزلی میں تبدیل اورملک اورمعاشرے میں اخلاقی زوال کی آخری حد۔
فتنہ ایسی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر قرآن کریم میں بھی کیا اورمیرے نبی آخرالزماںﷺ نے اپنی احادیث میں بھی اس کاتسلسل سے ذکر کیا ہے۔ اس کے ذکر کا مقصد لوگوں کو ڈرانا اورفتنوں سے بچاؤ کے لیے خود کو ہر دورمیں تیار رکھنا ہے۔قرآن پاک میں اس کا ذکرکئی جگہوں پر ہے لیکن ایک مرکزی بات ذکر کردیتا ہوں جس سے آپ کو فتنے کی سنگینی کا اندازہ ہوجائے گا ۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیۃ نمبر ۱۹۱میں فرمایا کہ ’’فتنہ اشدمن القتل‘‘ سوچیں کہ انسانی جان کی قیمت کیا ہے اور کسی کوقتل کرنا کتنا بڑا گناہ اورجو اللہ ایک طرف یہ کہہ رہا ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویااس نے پوری انسانیت کا قتل کیا ۔وہی اللہ فرمارہا ہے کہ ان کا فتنہ قتل جیسے جرم سے بھی زیادہ بڑا اور سخت ہے۔فتنہ کا جس رخ سے بھی مطالعہ کریں اس میں خیر نامی کوئی شے نہیں ہے۔ فتنہ تباہی،فتنہ بربادی، فتنہ شر،فتنہ فساد،فتنہ تماشا۔
فتنہ کے بارے میں ایک چیز مشترک ہے کہ یہ ہر مذہب،ہر معاشرے، ہر قوم اور ملک میں فتنہ ہی ہے۔ یعنی کسی بھی معاشرے میں اس کو پسند نہیں کیا گیا۔اور ہرمعاشرے میں اس کا قلع قمع کرنے کے لیے باقاعدہ قوانین موجود ہیںایک اور چیز مشترک کہ اس کاخاتمہ اس کا دبانے سے نہیں بلکہ اکھاڑ پھینکنے سے ہی ہوتا ہے۔اسلامی تاریخ میں بھی مختلف ادوارمیں مختلف فتنے اٹھے جن کو اس وقت کی قیادت نے متفقہ کے طورپرفیصلہ کرکے نہ صرف اس کامقابلہ کیا گیا بلکہ اس کو جڑسے اکھاڑپھینکا گیا۔ حضور اکرمﷺ کے دنیا سے ظاہری پردہ فرماجانے کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ بنے تو ان کومنکرین زکوٰۃ کے فتنے کا سامنا کرنا پڑا۔حضرت ابوبکرؓ نے اس فتنے کو کچلنے کے لیے باقاعدہ جہاد کا اعلان کیا۔اس جہاد سے منکرین زکوٰۃ کے فتنے کو کچلا گیا۔اس کے بعد دورخلافت راشدہ میں ہی ایک اور فتنہ اٹھا۔ یہ فتنہ انکارحدیث کا تھا۔ یہ فتنہ اتنا شدید تھا کہ آج بھی اس کے خلاف جدوجہد جاری ہے۔اس کے علاوہ مختلف ادوارمیں مسیلمہ کذاب جیسے کئی کردار سامنے آئے ۔جنہوں نے معاذاللہ نبوت کے ہی دعوے کرڈالے لیکن یہ فتنے بھی اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکے۔اور نہ ہی کبھی کامیاب ہوسکتے ہیں کہ ہمارا ختم نبوتﷺ پرایمان اتنا گہرااورقطعی ہے کہ کوئی گمراہی ہمارا یہ ایمان متزلزل نہیں کرسکتی۔
اس بات پر تمام علما اور مجتھدین کا اتفاق ہے کہ قیامت سے پہلے فتنوں کا دورشروع ہوجائے گا اوراگرآپ تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادی کے دورفتن پرخطابات سن لیں تو فتنوں کے بارے بہت سی پرتیں کھل جائیں گی۔ طاہرالقادری صاحب نے اس موجودہ دور کو علامات کے ساتھ دورفتن ثابت کیا ہے۔ان کے مطابق اس وقت جو ہمارے معاشرے اور ملک کی صورتحال ہے اس میں فتنے عروج پر ہیں۔ہم اگر آج اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہمیں کئی اقسام کے فتنے اپنے ارد گردنظر آئیں گے۔
ہمارے معاشرے میں جس طرح کی تقسیم آچکی ہے اس سے بڑا فتنہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ آج ہم اخلاقی طورپرتقسیم ہیں۔ معاشرتی طورپرتقسیم ہیں اقدارپرتقسیم ہیں ۔سیاسی طورپر تقسیم اتنی گہری کہ ہمارے تعلقات، رشتہ داریاں اس سے متاثر ہورہی ہیں۔اندھی تقلید کا فتنہ سرچڑھ کر بول رہاہے۔غلط صحیح کی پہچان اٹھ چکی ۔جزا سزاختم۔ انصاف کا نظام تباہ وبرباد۔انصاف میں انتقام کی ملاوٹ ہی نہیں بلکہ انتقام زیادہ انصاف کم ۔قاضی کا ہر فیصلہ قابل بحث، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی مشینیں، راز جو اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار،اللہ کریم کے ناموں میں سے ایک نام، اللہ کریم نے خود کو ستارکہا کہ وہ پردہ ڈالنے والا ہے۔ستارالعیوب کہا خود کو اللہ کریم نے کہ وہ گناہوں کو چھپانے والا ہے لیکن ہم کیسے مسلمان کہ جاسوسی سے بازآتے ہیں اور نہ رازافشاکرنے میں کوئی برائی گردانتے ہیں۔ہم نے ٹیکنالوجی کے دم پر اپنے گھر خود اٹھاکر سربازار رکھ دیئے۔غیبت کے فتنے ۔چغلی چکاری کرنے والا سب کا دوست ٹھہرا۔ہم کیسے کیسے فتنوں کے جھرمٹ میں جینے پر مجبور ہیں کچھ سمجھ ہی نہیں آتی۔
سیاست اور اقتدار کےلیے کوئی مذہبی ٹچ دیتاہے اور کوئی ساری سیاست ہی اسلام کے نام پر کرتا ہے۔دکھاوا ایسا کہ لاعلاج بیماری کی طرح گھٹی میں رچ بس گیا ہے۔سیاسی گفتگو کے دوران تسبیح چلانا چہ معنے دارد؟لیکن اندھی تقلید کے فتنے میں مبتلا لوگوں کو یہ اداپسند ہے۔مدینہ کی ریاست بنانے کے الجھاوے اورکام ریاست کوفہ والے؟تضادات ایسے کہ اقتدار کی کرسی پر ہوں تو اصول کچھ،قانون کچھ لیکن یونہی اقتدارکا نشہ اترے سب اصول تبدیل۔وزیراعظم ہوں تو اپنی جاسوسی کو سکیورٹی کے لیے لازمی شرط قراردیں۔ اپنی فون ریکارڈنگ پر چنداں اعتراض نہ ہو لیکن اپوزیشن میں ہوں تو جلسوں میں کہتے پھریں کہ ’’ہماری ایجنسیوں کو ریکارڈنگ کے سوا کوئی کام نہیں ہے؟‘‘
فتنے ہر دوراورہرمعاشرے میں موجود رہے ہیں کہ شیطان کے چیلے جو ہوئے لیکن فتنے کی پہچان مشکل ہوتی ہے اور اصل کام وقت کے فتنے کو پہچاننا ہوتا ہے ۔فتنے کے علاج کے لیے اس کی پہچان آدھی کامیابی ہوتی ہے۔مسلم لیگ ن یا مریم نواز اس وقت عمران خان کو فتنہ اور فارن فنڈڈ فتنہ کہہ کر الزامات لگارہے ہیں اور مہم چلارہے ہیں ۔ فتنے کی تعریف اور اوپر بیان کیے گئے تاریخی حقائق کی روشنی میں خان صاحب کو کوئی فتنہ ماننا فی الوقت کا فی مشکل بھی ہے اور نہ ہی میرا یہ منصب کہ کسی قسم کا فتویٰ صادر کروں کہ کون فتنہ ہے اور کون فتنہ نہیں ہے۔یہ بات اٹل ہے کہ ہم دور فتن میں زندہ ہیں۔ ویسے تو موجودہ قائدین چاہے وہ مذہبی قیادت ہو یا سیاسی ان کی حرکتیں دیکھیں تو کوئی بھی فتنے سے کم نہیں لگتا۔کیونکہ سب تقسیم کی بانسری بجارہے ہیں جوڑنے کا راگ نہ کو ئی گارہا ہے ،نہ گانا چاہتا ہے اور نہ ہی شاید کسی کو سوٹ کرتا ہے۔بطور معاشرہ اور اس پاکستان کے شہری ہم اپنی سوچ ایسی ہی فتنہ پرورشخصیات کے ہاں گروی رکھ چکے ہیں ۔خود سے نہ سوچنے کو تیار ہیں۔نہ سمجھنے کو اور نہ ہی درست اور غلط میں خود پہچان کرنے کو تیار۔آئیں ہم سب اپنی سوچ کو’’ آؤٹ سورس‘‘کرنے کے بجائے اس کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button