ColumnM Anwar Griwal

سرکاری اور پرائیویٹ ڈاکو! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

برادرِ عزیز انعام الحق راشد کو ملتان کا سفر درپیش تھا، کہ اُن کی ہمشیرہ اپنے بھانجے کے ساتھ دبئی سے واپس آرہی تھیں۔ انہیں ائیر پورٹ سے گھر لے کر آنا تھا، فلائٹ رات دو بجے کی تھی۔ ائیر پورٹ سے نکلتے تین بج گئے، ابھی ملتان شہر میں ہی تھے کہ ایک ٹیوٹا کرولا گاڑی نے راستہ روک لیا۔ تین مسلّح افراد باہرنکلے اور اِن کی گاڑی کو گھیر لیا، دروازے کھول کر انہوں نے لیپ ٹاپ، موبائل، زیورات اور نقدی چھینی، مسافروں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور تسلی سے فرار ہوگئے۔ انعام نے 15پر رابطہ کیا، کسی حد تک پولیس کے روایتی رویے کا سامنا بھی کرنا پڑا، اُن کے آنے پر تھانے جاکر رپورٹ درج کروائی اور صبح سویرے یہ لُٹا پُٹا چھوٹا سا قافلہ بہاول پور کی طرف روانہ ہوگیا۔ پولیس کو گاڑی کا نمبر اور رنگ بھی بتا دیا گیا تھا۔ مدعی بہاول پور میں مقیم تھا، رپورٹ ملتان میں تھی، کچھ روز بعد اطلاع دی گئی کہ ’’آپ کا کیس خارج کر دیا گیا ہے‘‘۔ انعام کاچونکہ کالم نگار ہونے کے ناطے خود بھی صحافی برادری سے تعلق ہے، اُن کے برادرِ خورد راحیل طاہر بھی میڈیا سے منسلک ہیں، چنانچہ اسی حوالے سے تھانے والوں نے ڈکیتی کا کیس درج کر لیا۔ اب نتیجہ کیا ہوتا ہے، یہ وقت ہی بتائے گا۔ اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش سمجھ کر صبر کے گھونٹ پی کر بھول جائیں کہ تقدیر میں یہی لکھا تھا یا عام آدمی کے تحفظ کے لیے حکومت کے ناکافی اقدامات پولیس کی غفلت اور نااہلی کا نوحہ پڑھیں؟ واقعہ کے بعد موقع پر جمع ہونے والے لوگوں نے بتایا کہ یہاں ڈاکہ زنی ایک معمول بن چکا ہے، جس کی وجہ سے علاقہ کے لوگوں نے ’’ہم پر نہ رہنا ، اپنی حفاظت خود کرنا‘‘ کے فارمولے پر عمل شروع کر رکھا ہے۔ شاید پولیس اور ڈاکوئوں نے یہاں گہری یکجہتی کا معاہدہ کر رکھا ہے۔
یہ تو وہ ڈاکو ہیں جو واردات کرکے غائب ہو جاتے ہیں، پکڑے جانے کا اَنجانا خوف بھی اُن کا پیچھا کر رہا ہوتا ہے۔ کبھی کسی کیمرے کی مدد سے یا کسی پکڑے جانے والے کی مخبری کی وجہ کوئی ڈاکو گرفتار ہو بھی جائیں تو اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی یعنی جلد یا بدیر وہ باعزت رہا ہو کر دوبارہ میدانِ عمل میں کود جاتے ہیں اور پولیس کی مدد اور تعاون سے دوبارہ عوام کی ’خدمت‘ کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے ڈاکو بھی ہیں جنہیں
ہر کوئی جانتا پہچانتا ہے، مگر آنکھ اٹھا کر دیکھ نہیں سکتا، آگے ایک لفظ بول نہیں سکتا،اپنا لُوٹا گیا مال اسباب واپس لینا تو در کنار ، قطار میں لگ کر خود متعین رقم ڈاکوئوں کے حوالے کرتا ہے۔ یہ ڈاکو ہے بذاتِ خود ہماری حکومت۔ جس کا عوام کا خون نچوڑنے والا سب سے اہم محکمہ واپڈا ہے۔ جس غریب کی آمدنی بیس ہزار ماہانہ تک ہے، اس کا بجلی کا بل اُس کی آمدنی سے بھی زیادہ آجائے تو وہ کیا کرے گا؟ اور جب بل آگیا تو اسے روکنے والا یا کم کرنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا۔ بس یہی کہا جاتا ہے کہ ’’یہ تو بھرو، اگلی دفعہ دیکھیں گے‘‘، اور اگلی دفعہ پھر بل ویسا ہی آجاتا ہے، نہ کوئی دیکھنے والا ملتا ہے، نہ سننے والا اور نہ مدد کرنے والا۔ اگر چھیالیس یونٹ کا بل نو ہزار روپے سے زائد ہو تو اِسے بھی قسمت کے کھاتے میں ہی ڈالا جائے گا؟ کیا یہ بل کوئی انسان نہیں بناتا؟ بے حسی اس قدر زیادہ کیوں ہو گئی ہے؟ شاید اس لیے کہ حکومت کے خزانے بھرنے والا سب سے اہم محکمہ واپڈا ہی ہے۔ یہ سوشل سکیورٹی یہ لیبر ڈیپارٹمنٹ اور دیگر حکومتی ڈریکولا اسی طریقے سے عوام کا خون چوسنے کا بندوبست کرتے ہیں۔
حکومتی ادارے ہی نہیں، حکومت خود بھی یہی کام کرتی ہے، کابینائوں کے ممبران کی تعداد کا جائزہ لے لیں، آئے روز وزراء کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے، مشیروں اور معاونینِ خصوصی وغیرہ کی فوج بھرتی ہو رہی ہے، درجہ وزیر کے برابر بتایا جاتا ہے، یعنی کام دھیلے کا نہیں ، سرکاری گاڑی، پٹرول ، ملازمین، مراعات ، عیاشیاں اور اخراجات لاکھوں روپے ماہانہ ، وہ بھی قومی خزانے پر ڈاکہ ڈال کر ۔ ستم ملاحظہ فرمائیں کہ یہ ڈاکے قانونی شکل میں ڈالے جاتے ہیں، عوام پِستے رہیں، سیلابوں میں ڈوبتے اور تباہ ہوتے رہیں بددعائیں دیتے رہیں، خود کشیاں کرتے رہیں، بھوک پیاس سے مرتے رہیں، بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہیں، یا محروم کر دیئے جائیں، کسی بھی صورت میں حکومتی اور سرکاری مقتدر لوگوں کی عیاشیوں میں کمی نہیں آنی چاہیے، یہ لوگ بذاتِ خود کروڑ اور ارب پتی ہیں، مگر ان کی تمام عیاشیاں بھی قومی خزانے سے جاری رہتی ہیں، جبکہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ قومی خزانے کو ہرا بھرا کرنے اور رکھنے کے لیے اپنا خون پسینہ اُس میں ڈالتے ہیں۔ یوں حکومت، بیوروکریسی اور اشرافیہ مفت بجلی اور پٹرول سے لطف اندوز ہوتی ہے، اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جینے والے مر مر کر بل بھی ادا کرتے ہیں اور پٹرول بھی جیب سے ڈالتے ہیں، اِس کے لیے انہیں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹنا پڑتا ہے، اِس سے گھروں میں لڑائیاں ، بیماریاں اور نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ انعام بھائی! آپ کو ذہنی اور مالی تکلیف دینے والوں کا اللہ کرے کوئی پتا چل جائے، آپ کا مالی نقصان پورا ہو جائے۔ مگر یہ سبز نمبر پلیٹوں ، ہمارے پیسے کے پٹرول ، ہمارے مال سے مفت بجلی لُوٹنے والے حکومتی اور سرکاری ڈاکوئوں کو کون اور کب پوچھے گا؟ کیا یہ مقدمہ اللہ تعالیٰ کی عدالت تک ملتوی رہے گا، یا پھر عوام اپنا حق خود حاصل کرنے کے لیے میدان میں اتر آئیں گے اور ہر ہر چوک پر سبز پلیٹیں، نیلی بتیاں، وزیروں مشیروں کی گاڑیاں روکی جائیں گی، اور یہ ظالم ڈاکو آخر عوام کے غیظ وغضب کا نشان بن جائیں گے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button