Editorial

بھارت کو مذاکرات کی مشروط پیشکش

 

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ایک بارپھر بھارت سے مشروط بات چیت پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں آئندہ نسلوں اور خطے میں خوشحالی کے لیے اپنے پیچھے امن اور ترقی کی میراث چھوڑنا چاہتا ہوں۔ بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، اب یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے ضروری اقدامات کرے، بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ظلم وبربریت کے خاتمے تک امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، بھارت نے 7 دہائیوں سے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو غصب کررکھا ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں کشمیریوں کو دیا گیا ہے، دنیا بھارت کے جمہوری چہرے کے پیچھے چھپے حقائق کو دیکھے، بھارت اپنی اقلیتوں، ہمسایوں، خطے کے امن اور خود اپنے لئے خطرہ بن چکا ہے۔وزیراعظم پاکستان نے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ایشیا میں روابط کے فروغ اور اعتماد سازی کے اقدامات کے حوالے سے منعقدہ ’’سیکا‘‘کے چھٹے سربراہی اجلاس سے میں خطے میں تعاون بڑھانے اور اعتماد سازی کے لیے تنظیم کے کردار۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پاکستان میں ہونے والی تباہی۔ اقتصادی راہداری کی اہمیت۔ افغانستان کی صورتحال ۔ خطے کے امن اورخصوصاً مسئلہ کشمیرپر روشنی ڈالی اور اُن کے خطاب کا لب لباب یہی تھا کہ تمام تر وسائل انسانیت کی فلاح و بہبود، تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے صرف ہونے چاہئیں اور تمام ہمسایہ ممالک کو پائیدار امن اور سلامتی کے لیے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ بلاشبہ وطن عزیز کی جغرافیائی اہمیت پورے خطے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اِس کا فائدہ تمام دوست اور ہمسایہ ممالک اٹھائیں اورمعاشی فائدے حاصل کریںاسی لیے پاک چین اقتصادی راہداری سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے اور وزیراعظم شہبازشریف نے ’’سیکا‘‘ کے رکن تمام ممالک کو پاکستان میں سی پیک کے تحت تجارت، سرمایہ کاری اورکاروبار کے مواقع سے استفادے کی دعوت دی ہے۔ سب سے پہلے ہم پاکستان کی ایک بارپھر بھارت کو مشروط بات چیت کی پیشکش پر بات کرتے ہیں تو وزیراعظم پاکستان کا منصب سنبھالنے کے بعد محمدشہباز شریف نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو جوابی خط لکھا جس میں ان سے جموں و کشمیر کے تنازع کوحل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیاکہ خطے میں امن و استحکام مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات پر بامقصد مذاکرات کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آئیے امن کو محفوظ بنائیں اور عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کریں۔اِس سے پہلے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد قومی
اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کے دوران بھی شہباز شریف نے بھارت سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ پر امن دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل تک خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ہم کشمیر کے لوگوں کی ہر سطح پر سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایک طرف تو پرامن اور تعاون پر مبنی تعلقات کے خواہاں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن دوسری طرف کشمیر کے مسئلہ پر دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ انہوںنے مسئلہ کشمیر کو حل کردیا، حالانکہ نریندر مودی کے دور میں کشمیریوں پر بھارتی فوج کے ذریعے بربریت اور مظالم کی ہر حد پار کی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کی کمزوری کا ہمیشہ بھارت نے فائدہ اٹھایا ہے۔ آج مقبوضہ کشمیر بھارت کی چھائونی ہی اسی لیے بنا ہوا ہے کہ عالمی ادارے سب کچھ دیکھنے کے باوجود خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اگر پاکستان مظلوم کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی آواز نہیں اٹھاتا تو کوئی شبہ نہیں کہ بھارت اِس سے بھی زیادہ قتل و غارت گری کا بازار گرم کردے اور کشمیریوں کی نسل تک ختم کردے، لیکن پاکستان کی وجہ سے بھارت اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں رہا۔ پاکستان بھارت کے ساتھ پرامن اور تعاون پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور فریقین کی رضامندی کے بغیر کبھی حل نہیں ہوسکتا ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا یہ کہنا کہ انہوںنے مسئلہ کشمیر کو حل کردیا ہے، درحقیقت گمراہ کن اور جھوٹ سے زیادہ نہیں اور بلاشبہ اُن کی اِس اہم معاملے پر غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارت قابض ہے، اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی واضح دلالت کرتی ہیں۔ بھارت مقبوضہ وادی میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی یکسر نفی کرتے ہوئے دیگر مذاہب خصوصاً ہندوئوں کی آباد کاری کررہا ہے۔ کشمیریوں کی تیسری نسل کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ غرضیکہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ابتک جو اقدامات کرتاآیا ہے ان سب کے نتیجے پر اُسے جنگی جرائم کے مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے ۔ بھارتی قیادت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور فریقین کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرکے خطے کی خصوصاً دونوں ملکوں کے عوام کے لیے خوشحالی اور امن کا سفر شروع کرسکتی ہے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کے مشترکات کی طویل فہرست ہے خصوصاًزبان، رہن سہن اور کلچر۔ دونوں ممالک درآمدات اور برآمدات کے ذریعے اپنی عوام کے لیے آسانیاں اور معاشی فوائد کے مواقعے پیدا کرسکتے ہیں لیکن پاکستان کی ہر ممکن کوشش اور دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے باوجود بھارت مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پاکستان کی امن مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔بھارت کوسمجھ لیناچاہیے کہ مقبوضہ کشمیر تصفیہ طلب معاملہ ہے اور اس کو مذاکرات کے ذریعے جتنا جلد حل کرلیا جائے اِس میں دونوں ملکوں اور خطے کا ہی فائدہ ہے بصورت دیگر بھارت کی جنگی تیاریوں کی وجہ سے پاکستان کو بھی اپنے جوابی موثر دفاع کے لیے اقدامات کرتے رہنا ہوں گے حالانکہ یہی وسائل گولہ بارود کی بجائے انسانی صحت، تعلیم اورترقی پر خرچ ہونے چاہئیں لیکن بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آج اسلحہ کے انبار پر بھارت خرچ کررہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان محمدشہباز شریف نے بھارت کو مذاکرات کی مشروط پیشکش کرکے بڑے ظرف کا مظاہرہ کیا ہے، بھارتی قیادت بھی بڑے ظرف کا مظاہرہ کرے اور تسلیم کرے کہ مقبوضہ کشمیر پر اُس کا غاصبانہ قبضہ ہے لیکن وہ اِس مسئلے کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کا خواہشمند ہے تاکہ دونوں ملک ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا سفر شروع کرسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button