ColumnImtiaz Aasi

متضاد دعووں کی حقیقت ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

ایک عرصے سے مسلم لیگ نون کے رہنمائوں کا اپنے قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی بارے مختلف دعووں کا سلسلہ جاری ہے ۔وہ عام انتخابات سے قبل واپس آکر انتخابی مہم کی قیادت کریں گے، کبھی نومبر اور کبھی دسمبر میں ان کی واپسی کی نوید سن سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں۔ایک پارٹی رہنما حنیف عباسی نے تو یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ پنجاب میں نومبر میں مسلم لیگ نون کی حکومت ہو گی ۔ ایک اردو معاصر کی خبر ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کے درمیان ہونے والی مشاورت کے بعد طے ہوا ہے کہ میاں صاحب ابھی وطن واپس نہیں آئیں گے۔خبر کے مطابق نواز شریف اپنے خلاف مقدمات کی از سر نو تحقیقات کیلئے کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
سوال تو یہ ہے ماضی میں کوئی ایسی مثال موجود ہے کہ سپریم کورٹ سے سزا کے بعد اسی کیس کی دوبارہ انکوائری کیلئے کوئی کمیشن قائم کیا گیا ہو؟ مریم نواز کے حوالے سے خبر میں کہا گیا ہے کہ وہ پارٹی قائد کے اس مطالبے کو مقتدر حلقوں کے سامنے پیش کرنے کا ٹاسک پارٹی رہنمائوں کو دے سکتی ہیں۔ درحقیقت پی ڈی ایم کی عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک کے دوران مختلف مواقعوں پر اداروں کے خلاف نواز شریف کی تقاریر ان کی وطن واپسی میں رکاوٹ بن گئی ہیںورنہ نواز شریف کے خلاف مقدمہ اور اس میں ان کا اشتہاری ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔وہ وطن واپسی پر عدالت سے ضمانت کیلئے رجوع کر سکتے ہیں ان کے خلاف کوئی قتل کا مقدمہ نہیں ہے جس میں وہ اشتہاری ہیں لہٰذا ان کی واپسی میں مقدمہ کوئی بڑی رکاوٹ نہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا چند ہفتے قبل سپہ سالار کا یہ بیان بیرون ملک رہ کر اداروں کے خلاف بیانات دینے والوں کو اس کا حساب چکانا ہوگا۔کے بعد نواز شریف نے وطن واپسی کا پروگرام موخر کیا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ نواز شریف کو وطن سے باہر رہ کر اداروں کے خلاف بیانات دینے کے حساب کا خوف ہے، اسی لئے انہوں نے وطن واپسی کا پروگرام موخر کیا ہے ۔نواز شریف احتساب کے خوف سے ملک چھوڑ کر چلے گئے اب انہیں اداروں کے خلاف بیانات کا خوف وطن آنے سے انہیں روکے ہوئے ہے ورنہ تو وفاقی وزیر جاوید لطیف چند ہفتوں میںان کی وطن واپسی کا دعویٰ کر رہے تھے۔جہاں تک آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ نون کی کامیابی کی بات ہے تو عمران خان نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے قائدین
کو عوام کے سامنے برہنہ کر دیا ہے۔ کوئی کچھ کہہ لے دونوں جماعتوں کے قائدین کے خلاف منی لانڈرنگ اور لوٹی ہوئی دولت سے بیرون ملک جائیدادیں بنانے کی صداقت نے دونوں جماعتوں کے ووٹ بینک کو بہت متاثر کیا ہے۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ نون کی ناکامی اس امر کی واضح دلیل ہے عوام باشعور ہیں اور انہیں اچھے اور برے سیاست دانوں کی تمیز ہو گئی ہے۔عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر اس بات کی غماز ہے حکومت اور اس کے اتحادیوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے، وہ عوام میں اپنے اعتماد کو کیسے بحال کریں۔ سوچنے کی بات ہے کہ عوام عمران خان کی کال پر بہت کم وقت میں سڑکوں پرکیوں نکل آتے ہیں۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے اپنے ادوار میں غریب عوام کے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے اثاثے بنانے پر توجہ مرکوز کئے رکھی جس کے نتیجہ میں عوام نے عمران خان کو مسیحا جان کر ووٹ دیئے۔ گو عمران خان اپنے دور میں عوام کو کوئی خوشحالی تو نہیں دے سکے البتہ اپنے تین سالہ اقتدار میںبگڑی ہوئی معاشی حالت کو بہتر بنانے اور مہنگائی پر کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے دور کا موازنہ کریں تو موجودہ حکومت ابھی تک عمران خان کے دور کے مقابلے
میں عوام کو مہنگائی کے چنگل سے نکالنے میں بری طر ح ناکام رہی ہے۔شہباز حکومت کی بھرپور کوشش ہے وہ آئینی مدت پوری کرنے کے بعد انتخابات کا اعلان کریں تاکہ اس مختصرمدت میں وہ کسی طرح اپنے کھوئے ہوئے ووٹ بینک کو بحال کر سکیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کو ضمنی الیکشن میں کامیابی نہ ہوتی تو حکومت کب کا انتخابات کا اعلان کر دیتی ۔دراصل پنجاب میں نون لیگ کی شکست نے مسلم لیگ نون کی کمر توڑ دی ہے۔ پنجاب جو کبھی مسلم لیگ نون کا گڑھ سمجھا جاتا ہے چودھری پرویز الٰہی کے وزارت اعلیٰ سنبھالنے سے شریف خاندان کو سیاسی لحاظ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ایک ایسے ماحول میں جب پرویز الٰہی کی حکومت نے 1983 سے کرپشن مقدمات کا از سر نوجائزہ لینے کا اعلان کیا ہے، شریف خاندان کے خلاف نئے مقدمات قائم ہو سکتے ہیں شاید اسی لئے نون لیگ کی تمامر توجہ پنجاب حکومت کو کسی طریقہ سے گرانے پر لگی ہوئی ہے۔اگر ہم ماضی میں جائیں تو مسلم لیگ نون کے دور میں گجرات کے چودھریوں کے خلاف ان گنت مقدمات انہی کئے ضلع میں قائم کئے گئے لہٰذا چودھری خاندان تلخ لمحات کیسے فراموش کر سکتا تھا۔تعجب ہے حکومت نے عمران خان کے لانگ مارچ سے خائف ہو کر مارچ روکنے کے انتظامات کیلئے وزارت داخلہ کو 40 کروڑ دینے کی منظوری دی ہے حالانکہ مارچ کے شرکاء کو وفاقی دارالحکومت میں داخلے کی اجازت دے دی جاتی تو کون سی قیامت آجاتی۔مارچ کرنے والے اسی ملک کے رہنے والے ہیں وہ قومی املاک کو کیونکرنقصان پہنچا سکتے تھے۔دراصل حکومت عمران خان کے مارچ کو اسلام آباد داخلے پر بضد ہے ۔بادی النظر میں اسلام آباد میں امن وامان کے قیام کیلئے اسلام آباد پولیس کی نفری کافی تھی ۔ملک کی معاشی حالت اس قدر خراب ہے کہ دوسروں سے بھیک مانگنا پڑتی ہے اس کے باوجود اتنی کثیر رقم لانگ مارچ روکنے کیلئے منظورکرنا، کہاں کی عقل مندی ہے۔ درحقیقت نواز شریف کو مقتدر حلقوں کی طرف سے وطن واپسی کا گرین سگنل نہیں ملے گا ان کی واپسی ممکن نہیں۔ عمران خان نے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان نہیں کیاہے مارچ سے خوف زدہ حکومت مارچ روکنے کیلئے سپریم کورٹ چلی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button