ColumnJabaar Ch

بیانیوں کی ماں .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

اس وقت سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کامختلف قسم کے بیانیے بنانے اورعوام کو یہ بیانیے بیچنے پر ہی پورازور ہے۔کہاجاتا ہے کہ عمران خان صاحب ہر طرح کی صورتحال میں خود کو بچانے اور کارکنوں کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے بیانیے بنانے کے ماہر ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت ان کی مقبولیت اورعوام کی دلچسپی انہی بیانیوں کی وجہ سے ہے۔امریکی سازش سے اسٹیبلشمنٹ اوراب مہنگائی پر ان کا ہر بیانیہ بڑاطاقتور تھا اس لیے اب ان کودوبارہ وزیراعظم بننے سے کوئی روک ہی ہیں سکتا۔یہ الگ بات کہ اب آڈیولیکس میں ان کے بیانیوں کی حقیقتیں آشکار ہورہی ہیں۔دوسری طرف حکومت ہے جس کو لوگ اس لیے پذیرائی نہیں بخش رہے کیونکہ اس کے پاس کوئی بیانیہ نہیں ہے۔
جب بھی کوئی بیانیوں کی بات کرتا ہے تو میرا جواب صرف یہی ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے، سیاستدان اپنی سیاست کیلئے کئی طرح کی نعرے بازی کرتے ہیں،لیکن صرف کارکردگی ایسا بیانیہ ہے جو تمام بیانیوں کی ماں کہلاتی ہے۔یہاں کارکردگی آجائے وہاں سب بیانیے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ اپوزیشن میں ہونے والے ہر سیاستدان کے پاس بیانیے اوربیان بازی کی سہولت ہوتی ہے لیکن حکمران کے پاس صرف ایک ہی بیانیہ ہوتا ہے کہ وہ پرفارم کرے۔ عوام کی سہولت کیلئے کچھ کرے۔ لوگوں کو ریلیف دے۔ اگریہ پرفارمنس حکومت کرپائے تو دنیا کی کوئی بھی اپوزیشن کسی بھی بیانیے کے ساتھ اس کے سامنے نہیں ٹِک سکتی۔
دور نہیں جاتے تاکہ آپ کی یادداشت کا بھی زیادہ امتحان نہ ہو۔پی ٹی آئی کے دور حکومت میں چلتے ہیں ۔ دوہزاراٹھارہ سے اپریل بائیس تک کاجائزہ لیتے ہیں۔یہی عمران خان جو آج کل بہت مقبولیت کے دعویدار ہیں، ملک کے وزیراعظم تھے۔ وہی عمران خان ہیں جو آج بقول کچھ لوگوں کے اپنے بیانیوں کی وجہ سے عوام میں مقبول ہیں ۔جب وہ وزیراعظم ہاؤس میں تھے اس وقت بھی ان کے پاس ہر طرح کا بیانیہ بنانے کی سہولت موجود تھی ۔ یہی لوگ جو آج ان کیلئے سوشل میڈیا میں کام کررہے ہیں وہی لوگ اس وقت بھی میسر تھے بلکہ وہ سب سرکاری خزانے سے تنخواہیں لیتے تھے۔ صرف پنجاب کے محکمہ اطلاعات اور وزیراعلیٰ میڈیا سیل میں درجنوں پی ٹی آئی کے کارکن بھرتی تھے ،لیکن اس وقت کارکن ایسے شرمندہ تھے کہ جیسے کسی کو بھاری شکست ہوگئی ہو۔ جیسے ان کی عمران خان سے جڑی ہر آس ٹوٹ گئی ہو۔پی ٹی آئی کے اپنے کارکن حکومت کا دفاع کرنے سے دور بھاگتے تھے۔ شیخ رشید جیسا وزیرجو ہر وقت میڈیا میں آنے کیلئے بے تاب رہتا ہے، وہ شیخ رشید میڈیا انٹرویو سے دور بھاگتے تھے۔ جب کبھی سامنا ہوتا بھی تھا تو کہتے تھے کہ صرف ان کی وزارت سے متعلق سوال کریں۔ وہ پی ٹی آئی یا حکومت کے ترجمان نہیں ہیں ۔ وجہ کیا تھی؟وجہ تھی مہنگائی۔ ناقص کارکردگی اور کمزور گوررننس۔ اس وقت یہی عوام تھی جو عمران خان کو کسی ہیرو یا نجات دہندہ کے روپ میں نہیں بلکہ حکمران کے طورپردیکھتی تھی اوران سے ریلیف کی توقع کرتی تھی۔ اس لیے وہ ہر طرح کا بیانیہ بناکر بھی لوگوں کا غصہ کم کرنے میں یکسرناکام تھے۔ ملک میں کسی بھی جگہ ضمنی الیکشن ہوتا اس الیکشن میں پی ٹی آئی بری طرح ہار جاتی۔پنجاب میں گیارہ حلقوں میں الیکشن ہوا گیارہ کے گیارہ میں پی ٹی آئی اپنی حکومت ہونے کے باوجود ہارگئی اور نون لیگ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے جیت گئی۔نون لیگ کے پاس اس وقت کونسا بیانہ تھا جو آج نہیں ہے؟ فرق کیا تھا؟ فرق صرف یہ تھا کہ اس وقت نون لیگ حکومت کے بجائے اپوزیشن میں تھی اور لوگوں کو پتا تھا کہ ان کو ریلیف دینا ان کا نہیں بلکہ عمران خان کا کام ہے اور وہ ناکام ہیں۔
دوہزار اٹھارہ میں شروع ہونے والا مہنگائی کا طوفان عمران خان جیسے پاپولرلیڈر کو بے توقیر کرتا رہا۔ خان صاحب مہنگائی کے جواز دیتے لیکن عوام کہتے کہ سب جواز بلاجواز ہیں۔انہیں روٹی چاہیے ۔ مہنگائی سے نجات چاہیے ۔روزگار چاہیے اور حکمران ان سب کا بندوبست کرنے کا ذمہ دار ہے۔اس دور میں لوگ خان صاحب کی حکومت سے اس قدرمایوس تھے کہ ہر سروے یہی بتاتا تھا کہ اگر ملک میں آج الیکشن ہوں تو جیت نون لیگ کی ہوگی۔مریم نواز جلسوں میں کہتی تھیں کہ پیسا نہیں نون لیگ کا ٹکٹ چل رہا ہے اور خان صاحب سمیت پی ٹی آئی کا ہر لیڈر تسلیم کرتا تھا کہ مریم ٹھیک کہتی ہے لوگ آئندہ الیکشن لڑنے کیلئے پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے کے خواہشمند نہیں ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ پنجاب حکومت تبدیل کرنے کیلئے پچیس لوگوں نے اپنی سیٹیں ایک اشارے پر داؤ پر لگانے سے بھی گزیر نہیں کیا تھا۔
اب کیا ہوا ہے کہ وہ نون لیگ جس کا ٹکٹ چلتا تھا وہ نون لیگ تنقید کی زد میں ہے اور وہ پی ٹی آئی جس کا کوئی ٹکٹ لینا نہیں چاہتا تھا وہ اتنی مقبول ہے کہ خان صاحب کو فوری الیکشن کی صورت میں دوبارہ حکمران بننے کا یقین ہوچلا ہے۔ وہ بیانیہ صرف کارکردگی کا بیانیہ ہے ۔ کل عمران خان ناکام حکمران تھے تو عوام نون لیگ کے ساتھ تھے اورآج نون لیگ ایک ناکام حکومت میں ہے اس لیے عوام خان صاحب کے ساتھ ہیں۔خان صاحب اپوزیشن میں ہیں اس لیے ان کے بنائے ہوئے بیانیے لوگ خرید رہے ہیں ۔آج اگر حکومت یہیں سے پرفارم کرنا شروع کردے ۔ملک میں مہنگائی کم ہوجائے ۔عوام کو سکھ کا سانس آنا شروع ہوجائے تو نون لیگ کیلئے دوبارہ قبولیت آجائے گی۔
فارمولہ بہت سادہ ہے کہ حکمران کوئی بھی ہو عوام اس سے سوال کرتے ہیں ۔ اس پر غصہ کرتے ہیں اور یہ ان کا حق بھی ہے ۔ حکمران صرف اپنے گھر بھرنے کیلئے نہیں ہوتے۔ عوام انہیں اس لیے تو اقتدار نہیں دیتے کہ وہ 75رکنی کابینہ بناکر سب کو نوازنے لگ جائیں۔ اپنے کیسز ختم کرانے کی روش پر چل نکلیں۔مریم نوازمشکل میں عوام کے ساتھ کھڑی ہونے کی بجائے اپنے داماد کا پلانٹ منگوانے پر لگ جائیں۔نون لیگ کو حکومت ملی ہے تو اس کو کارکردگی دکھانا پڑے گی۔ عوام یہ نہیں جانتے کہ دنیا میں کتنی مہنگائی ہے اور عالمی منڈی میں تیل کس بھاؤ ہے اورآئی ایم ایف کیا شرائط رکھ رہا ہے۔ عوام کیلئے دووقت کی سکون کی روٹی ۔سستا اوربہتر معیارزندگی اہم ہے۔اگر حکمران یہ کرسکتے ہیں تو عوام کے پیسے پر عیش کرنے میں کسی طور حق بجانب ہیں اگر ان کا مقدرمہنگائی اور بیروزگاری ہی ہونا ہے تو پھر اس حکمران کو نکال کر دوسرے کو لانا اور دوبارہ آزمانا ان کا حق ہے۔
نون لیگ کے سامنے بھی ایک ہی چیلنج ہے اور وہ ہے پرفارمنس کا چیلنج ۔اگر نون لیگ کی حکومت آج اس چیلنج کو قبول نہیں کرے گی ،عوام کیلئے بہتری نہیں کرے گی تو پھر اس کاحال بھی وہی ہوگا جو عمران خان صاحب کی حکومت کا چھ ماہ پہلے تک تھا۔خان صاحب نے اپنے دورحکومت میں چار وزیر خزانہ بدلے تھے نون لیگ نے بھی اپنا وزیر خزانہ تبدیل کردیاہے۔مفتاح اسماعیل کی ناکامی کا اعلان کرکے حکومت اسحاق ڈارکو واپس لانے پر مجبور ہوئی ہے۔ کہا اور سمجھا جارہا ہے کہ اسحاق ڈار کوئی معجزہ کر گزریں گے۔پی ٹی آئی کے لوگوں کو یقین نہیں ہے کہ اسحاق ڈار کچھ کرپائیں گے ۔ ان کا حق ہے کہ وہ یقین نہ کریں کیونکہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اپوزیشن میں کوئی بھی ہو ا س کی خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ ملک میں کچھ بھی ٹھیک نہ ہونے پائے لیکن یہ ملک صرف اپوزیشن کا نہیں ہے۔ یہ ملک بائیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے ۔ان لوگوں کو ایک اچھا پاکستان چاہئے۔ اپنے بچوں کیلئے بہتر مستقبل چاہئے۔ کچھ لوگ ہی بہتر مستقبل کیلئے پاکستان سے باہر جاکر اوورسیز بن کر اپنی زندگی بہترکرسکتے ہیں ۔پاکستان کی اکثریت نے یہیں رہنا اور مرنا جینا ہے۔اس لیے اس ملک کا ٹھیک ہونا لازمی ہے۔ وہ ٹھیک اگر اسحاق ڈارکرسکے تو کسی کو کیا اعتراض ہے؟لیکن سو باتوں کی ایک بات کہ حکومت کیلئے کارکردگی کے سوا نہ کوئی راستہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اس سے طاقتور بیانیہ ۔اس لیے اگر حکومت پرفارم نہ کرسکے تو بہتر ہے اپنی شکست کا اعلان خود کرکے خان صاحب سے صلح کرلے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button