ColumnNasir Sherazi

گدھوں اور کتوں کی کمائی .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

نووارد وزیر خزانہ حکومت پاکستان اسحق ڈار نے ڈالر کا وہ حال کردیا ہے جو جاپانی پہلوان انوکی نے اکرم پہلوان کا ایک کشتی کے دوران کردیا تھا۔ ڈالر کی چیخیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، لگتا ہے ڈالر کا بازو ڈار کی گرفت میں آچکا ہے، جسے وہ آسانی سے نہیں چھوڑے گا، کھینچاتانی جاری رہے گی، اس میں اسحق ڈار کا کچھ نہیںبگڑے گا ڈالر کا کندھا اتر جائے گا، انوکی، اکرم کشتی میں اکرم پہلوان کا کندھا اتر گیا تھا جس کے بعد کشتی ختم ہوگئی تھی۔
ہمارے وزیر خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ ڈالر کو وہ چند روز کے اندر اندر دو سو روپئے تک ڈائون کردیں گے، ڈار صاحب کی کارکردگی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ڈالر کو اس حد تک گرانے بلکہ ناک رگڑوانے میں کامیاب ہوجائیں گے، لیکن اصل کشتی تو اس کے بعد شروع ہوگی، ڈالر گرگیا، ڈار صاحب اُس کے سینے پر سوار ہوجائیں گے، پھر دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ ڈالر کے سینے پر کتنی دیر تک سوار رہتے ہیں، نیچے گرا ہوا ڈالر چپ چاپ آرام سے تو نہیں لیٹا رہے گا کہ ڈار صاحب اُس کے سینے پر سوار ہی رہیں اور بڑھکیں بھی مارتے رہیں۔ وہ یقیناً مزاحمت کرے گا، دائیں بائیں کروٹ لے کر ڈار صاحب کو چت کرنے کی کوشش کرے گا، ڈالر ڈار صاحب کو گراکر اٹھ کھڑا ہوا تو پھر کیا ہوگا، ڈالر کی اڑنگی دے کر دوبارہ گرانا مشکل ہوگا لہٰذا ضروری ہے کہ اس حوالے سے دور رس اقدامات کئے جائیں، اصل چیلنج یہ ہے باقی سب کہانیاں ہیں۔
اسحق ڈار نے اپنے سابق دور میں ڈالر کو نکیل ڈالے رکھی تھی، ڈار صاحب آگے آگے اور ڈالر سر جھکائے ان کے پیچھے پیچھے چلتا تھا، انہوںنے اپنی تاریخ دہرادی تو یہ بڑا معرکہ ہوگا، ان کے سیاسی مخالفین کہتے پھرتے ہیں کہ انہوں نے مصنوعی طریقے سے ماضی میں ملکی اقتصادیات کو چلایا، طریقہ مصنوعی تھا یا حقیقی، حقیقت یہی ہے کہ ملک آگے بڑھ رہا تھا، مہنگائی کنٹرول میں تھی، ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر نہیں پہنچا تھا لیکن 2018 میں رجیم چینج کی مجبوریوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے یہ بھی رونا رویا گیا کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، جنہوںنے اس وقت ان کے کان میں کہا تھا کہ فی الحال آپ کی ضرورت نہیں، آپ خاموشی سے باہر چلے جائیں، انہوں نے ہی ملکی خزانے اور ملکی اقتصادیات کی اسد عمر اور بعد میں آنے والوں کے ہاتھوں درگت بنتے دیکھ کر انہیں انتہائی رازداری سے بلایا یوں وہ چلے آئے۔ انہوںنے آتے ہی راز طشت ازبام کردیا کہ ڈالر کو آسمان پر چڑھانے میں ملک کے نصف درجن سے زائد بینک ملوث تھے، جو دھڑا دھڑ ڈالر خرید کر اس کی قیمت بڑھارہے تھے، بینکوں کی دیکھا دیکھی کئی اور مافیاز بھی میدان میں کود پڑے پھر وہ وقت آیا جس کے پلے چند لاکھ روپئے تھے وہ بھی تمام کام چھوڑ کر ڈالر ڈالر کھیلنے لگا، ڈالر کو مصنوعی انداز میں کنٹرول کرنا اتنا آسان ہوتا تو اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد سابق وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان سامنے نہ آتا کہ ڈالر کو کھلا چھڑ دو یہ خود بخود اپنی جگہ پر آجائے گا، ڈالر نہ تھا شیرو تھا، جو مالک کا اشارہ سمجھتا تھا، درحقیقت یہ سب کچھ ان بڑے صاحب امریکہ کی فرمائش پر کیا گیاتھا جنہوں نے اقتدار کے بدلے کچھ وعدے لئے تھے۔ جن میں کشمیر، نیوکلیئر اور پاک کرنسی کو پچاس فیصد ڈی ویلیو کرنا شامل تھا، کچھ وعدے پورے کردیئے گئے، کچھ ہونے جارہے تھے کہ پائوں ’’سرخ لائن‘‘ پر پڑتے ہی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ ڈالر کو کھلا چھوڑنےاور خوب خوب اس دھندے میں ہاتھ رنگنے والے تو کچھ کماکر ایک طرف ہوگئے لیکن قوم ابھی اس کو طویل عرصہ تک بھگتے گی۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایک ریٹنگ ایجنسی نے پاکستان اور اس کے پانچ بینکوں کی ریٹنگ منفی کردی ہے، قوم کے مجرم بینکوں کی انتظامیہ کیخلاف کوئی ایکشن ہوگا؟ ڈالر کی قیمت گرنے سے ملکی قرضوں کے انبار میں کچھ کمی ہوئی ہے لیکن ابھی بھی یہ بوجھ ہماری ہمت سے زیادہ ہے، لیگی حکومت جب اقتدار سے علیحدہ کی گئی تو ڈالر 120 روپئے کے قریب تھا جو خان حکومت میں دو سو بیس روپئے سے بڑھ گیا، ملکی قرضے اسی تناسب سے بڑھے، حکومت اگر ایک دو بڑے اور مہنگے قرض جلد اتار دے تو اس کا ادا ہونے والے سود ہی بڑ ی بچت ہوگی لیکن صرف اس قسم کی بچتوں سے نظام کو استحکام نہیں ملے گا، ملکی
اور انتظامی اخراجات کم کرنے ہوں گے، اراکین اسمبلی اور اعلیٰ ترین افسران کی سہولتوں پر لٹایا جانے والا پیسہ بھی بچانا ضروری ہے۔ آج وفاقی کابینہ 75 افراد کی ہوچکی ہے، لگتا ہے اس کی سینچری کرانا مقصود ہے، نصف سے زائد کابینہ مشیروں کے پاس کوئی محکمہ کوئی کام نہیں ہے، انہیں حکومت پاکستان کے داماد کا درجہ حاصل ہے، جن کے اخراجات ہر پاکستانی کی جیب کاٹ کر پورے کئے جائیں گے۔
اِس کڑے وقت میں جبکہ پاکستان حقیقی معنوں میں دیوالیہ ہونے کی دہلیز پر تھا، وزیر اور مشیروں کی فوج پالنے کی کوئی ضرورت نہ تھی، زیادہ سے زیادہ بیس پچیس وزرا کی ٹیم سے کام چلایا جاسکتا تھا، حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد دو بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں، ان میں ایک تو ملک کے سب سے غریب اور پسے ہوئے طبقے کی حالت پر رحم کرتے ہوئے ان کا موٹر ویز سے گذرتے ہوئے ٹال ٹیکس معاف کردیاگیا ہے، یہ طبقہ ارکان قومی اسمبلی و سینیٹ کا ہے، دوسرے کارنامے کے مطابق بجٹ کے موقعہ پر اشیائے تعیش کی درآمد پر پابندی لگانے کے بعد اسے چند ہفتوں بعد اٹھالیاگیا تھا تاکہ ملک کا یہ دوسرا مظلوم طبقہ ان اشیا کی درآمد سے اپنی دال روٹی چلاسکے۔
قوم کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ گذشتہ پچاس برس سے جاری ہے، جس کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ ہمارا ملک ایک زرعی ملکی ہے، اس کی آبادی کا ستر فیصد حصہ گائوں، دیہات میں رہتا ہے، اس کا ذریعہ معاش زراعت ہے، اندازہ کیجئے ستر فیصد لوگ زراعت کرتے ہیں اور تیس فیصد کا پیٹ نہیں بھرسکتے، کبھی گندم نہیں تو کبھی چینی نہیں، اربوں روپئے اس کی درآمد پر خرچ کئے جاتے ہیں، زراعت کی بہتری اور کسان کی سہولت بڑھانے پر کسی کا دھیان نہیں، رہی سہی کسر کھلے بارڈروں سے اہتمام کے ذریعے سمگلنگ سے پوری ہوجاتی ہے۔
ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ کارخانوں کے مالک نئی نویلی دلہن کی طرح ہر نئی حکومت سے ناراض ہوکر بیٹھ جاتے ہیں، ان کی فرمائشوں کی لسٹ ملاحظہ فرمائیے، انہیں سستی بجلی، سستی گیس بلکہ اس پر سبسڈی چاہئے تاکہ وہ سستا کپڑا و دیگر مصنوعات تیار کرکے برآمد کریں اور خوب مال کمائیں، ساتھ ساتھ برآمد کرنے پر ڈیوٹی ری فنڈ بھی حاصل کریں اور ملک میں بسنے والوں کو بھی مہنگا ترین کپڑا بیچ کر مزید کمائی کریں، اِس طبقے کو عرصہ دراز سے پالا جارہا ہے جو پورا ٹیکس بھی ادا نہیں کرتا۔
قوم کو خوشخبری سنائی گئی ہے کہ چین اور کوریا پاکستان سے گدھے اور کتے درآمد کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ماہرین معیشت کے مطابق پاکستان ہر سال دس ارب ڈالر کے گدھے اور کتے برآمد کرسکتا ہے، ہم اپنے وسائل سے کالا باغ ڈیم نہیں بناسکے، گدھے اور کتے برآمد کرکے کمائے جانے والے ڈالروں سے کالا باغ ڈیم ہی تعمیر کردیں، اس کے صدر دروازے پر ایک گدھے اور ایک کتے کا مجسمہ بنانا نہ بھولیں، ہماری معیشت گدھوں اور کتوں کے حوالے کرنے میں کوئی حرج نہیں، وہ صرف گھاس اور راتب پر گزارا کریں گے، ملک کونہیں بھنبھوڑیں گے۔ نئی نسل کے مقدر میں گدھوں اور کتوںکی کمائی لکھی نظر آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button