ColumnImtiaz Aasi

ملک سے کھلواڑ چھوڑ دیں .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

آج کل سیاست دانوں کی ایک دوسرے خلاف الزامات کی گولہ باری اور مقدمات کا سلسلہ عروج پر ہے۔جمہوری دور میں عوام کو اپنے گوناگوں مسائل کے حل کی امید ہوتی ہے، جو وقت گذرنے کے ساتھ قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے۔سیاست دانوں کو نہ عوام کی مشکلات کا احساس ہے اور نہ ہی ملکی ترقی کی فکر ہے۔چلیں عمران خان کے دور میں عوام کی مشکلات کم نہ ہو سکیںتو پی ڈی ایم کے دور میں غریب عوام کیلئے کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔پنجاب میں اشرافیہ کا اقتدار ختم ہونے کے بعد حکومت کی تماتر توجہ صوبے کی وزارت اعلیٰ پر مرکوز ہے۔جب سے حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ سے ہٹایا گیا ہے تایا ابو کی نیندیںاڑ گئی ہیں۔اقتدار کسی کی میراث نہیں ،یہ تو عوام پر منحصر ہے وہ اقتدار جس کو چاہیں سونپ دیں۔وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان نے شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد لانے کی بجائے اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں پیش کر دیا جہاں انہیں توقع سے بڑھ کر پذیرائی ملی ہے۔ دراصل عوام نے عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے جانے کو بہت سیریس لیا ہے۔ ایک اچھی خاصی چلتی حکومت کو چلتا کرکے ملک اور عوام کے کون سے مسائل حل ہوئے ہیں،الٹا ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا کرکے پی ڈی ایم کی جماعتوںنے سیاسی مستقبل تاریک کر لیا ہے۔
عمران خان لانگ مارچ کرے نہ کرے حکومت کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔وفاقی دارالحکومت بند کرنے پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے یومیہ خرچ ہو رہے ہیں،حالانکہ یہ کام عمران خان کے لانگ مارچ سے ایک دوروز پہلے بھی ہو سکتا تھا۔ عمران خان کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ تو نہیں جو وہ ایک ہی روز میں لانگ مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد لے آتا، جو حکومت نے کئی کروڑ پہلے خرچ کر دیئے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کاسانحہ ماڈل ٹاون میں رانا ثناء اللہ کو عمر قید کی سزا ہونے کے دعویٰ کے بعد پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے دوڑ دھوپ تیزہو گئی ہے۔ چودھری پرویزالٰہی ،رانا ثنااللہ کو سانحہ ماڈل ٹائون میں عمر قید کا اشارہ نہ دیتے تو بھی شریف خاندان کا بیوروکریسی اور پولیس میں نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ انہیں پل پل کی خبر ہوتی ہے ۔اب تو پنجاب
حکومت نے 1983میں کرپشن مقدمات از سر نو کھولنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد پنجاب حکومت کو گرانے میں تیزی آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔کئی عشرے پرانے کیس کھولنے سے شریف خاندان کے لوگوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ اراکین اسمبلی کی ہمدردیاں خریدنے کے ماہر آصف علی زرداری صحت یاب تو ہو چکے ہیں لیکن ڈاکٹروں نے انہیں مزید آرام کا مشورہ دیا ہے، ان کی علالت سے ضمیر فروشی کے کاروبار میں تعطل پیدا ہو گیا ہے۔حکومت پر ہوتا تو عمران خان کب کے نااہل ہو چکے ہوتے، یہ تو عدلیہ آزاد ہے جس کی وجہ سے سیاست دانوں اور عوام کو حصول انصاف میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔
جس طرح کاسیاسی ماحول بن چکا ہے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔وزیراعظم کا یہ بیان کہ وفاق کی طرح پنجاب میں آئینی تبدیلی پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا ،سوال تو یہ ہے کہ پنجاب میں تبدیلی لانے کی مجبوری کیا ہے۔کیاپنجاب میں وفاق کی طرح اراکین کی خریدوفروخت کرکے تبدیلی سے عوام کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ ضمیر فروشوں کی خریداری کے بعد انہیں ٹی وی چینلز پر دکھانا
جمہوریت ہے؟ اراکین اسمبلی کی ہمدردیاں خریدنا شریف خاندان کا پرانا وتیرہ ہے، گویا اس لحاظ سے سیاسی تاریخ قابل ستائش نہیں ۔ حکومت اور اس کے حواری کچھ بھی کہہ لیں ملک لوٹنے والوں کو بے نقاب کرنے کا سہرا عمران خان کے سر ہے۔حکومت انتخابات سے پہلے راہ فرار اختیار کئے ہوئے تھی مگر سیلاب بہانہ مل گیا ہے۔شریف خاندان کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے حصول میں ابھی تک جو کامیابی نہیں ہو سکی ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے ادارے غیر جانبدار ہو چکے ہیںورنہ تو وفاقی حکومت کی طرح چودھری پرویز الٰہی بہت پہلے وزارت اعلیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ چلیں اچھی بات ہے سیاست دانوں کو آپس میں کھیلنے دینا چاہیے۔البتہ جہاں ملکی سالمیت کا معاملہ ہو اداروں کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ہمیں سمجھ نہیں آتا سیاست دان ملک اور عوام سے کب تک یہ کھلواڑ کریں گے۔ ہم سے بعد آزاد ہونے والے ملک ترقی کر چکے ہیں، ہمارا ملک وہیں کا وہیں کھڑاہے۔جمہوریت کے علمبرداروںنے کبھی اس طرف سوچنے کی کوشش کی؟ اللہ کے بندو! ملک اور عوام سے کھلواڑ کرنا چھوڑ دو۔عمران خان نے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے ٹیلی تھون کرکے اربوں روپے منگوا کر متاثرین کو چیک کی صورت میں دینے کی ابتدا کر دی ہے۔سوال ہے اقتدار میں رہ کر پی ڈی ایم کی حکومت نے ابھی تک متاثرین کو گھروں کی تعمیر کیلئے کوئی رقم دی ہے؟ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد میں عوام کو کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف شعور دے کر ملک اور قوم کی بہت بڑی خدمت کی ہے، ورنہ تو اقتدار میں دو خاندانوں کی باریاں لگیں ہوئی تھیں۔ عجیب تماشا ہے، ملک معاشی طور پر کنگال ہے، مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے، سیلابوں نے غریب عوام سے چھت چھین لی ہے اوروہ کھلے آسمان تلے شب وروز گذارنے پر مجبور ہیں مگر سیاست دانوں کی حصول اقتدار کیلئے جنگ جاری ہے۔جمہوری حکومت کا یہ عالم ہے کہ روزمرہ ضرورت کی اشیاء غریب عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔ کاروباری طبقہ حسب منشاء قیمتوں میں اضافہ کر رہا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اپنے کرپشن مقدمات واپسی کیلئے نیب قوانین میں ترامیم ہو سکتی ہیں تو قیمتوں میںاضافہ روکنے کیلئے قانون سازی کیوں نہیں ہو سکتی؟زخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں اضافہ روکنے کیلئے از سر نو قانون سازی وقت کی ضرورت ہے جس میں ازخود قیمتوں میں اضافہ کرنے والوں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں تو قیمتوں پر کنٹرول کیوں نہیں ہو سکتا ؟اب تو سبزیاں عوام کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں،اقتدار کے مزے ضرور لو کچھ عام لوگوں کیلئے بھی کرگذرو۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button