Columnمحمد مبشر انوار

بادشاہ گر!! .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

پارلیمانی جمہوریت کی کہانی بارہویں صدی سے شروع ہوتی ہے ،جب برطانیہ میں عوام نے بادشاہت اور مذہبی ٹھیکیداروں کے خلاف بیک وقت اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور موجودہ اختیارات کے حصول میں صدیاں گذار دیں۔یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں جمہوریت کی جڑیںاس قدر مضبوط اور گہری ہیں کہ آمریت کا شائبہ تک نظر نہیں آتا اور عوام اس قدر باشعوراورپرعزم ہے کہ صدیوں بعد حاصل ہونے والے اس سیاسی شعور و مشق کو کسی طور پٹری سے اترنے نہیں دیتی۔برطانوی عوام کی جمہوریت کیلئے لازوال قربانیاں اور جدوجہد، برطانیہ کو دنیا بھر کیلئے قابل تقلید بنا چکی ہیں اور اس وقت کرہ ارض کے بیشتر ممالک میں یہی جمہوری عمل کسی نہ کسی شکل میں روبہ عمل ہے لیکن اس کی ساخت اور نام بہرطور مختلف ہونے کے باوجود جمہوریت پسندممالک میں اس عمل کی بنیادی پہچان ’’جمہوریت‘‘ ہی ہے۔ یہ خواہ پارلیمانی طرز سیاست ہو یا صدارتی نظام حکومت ،بنیادی کلیہ ہر جگہ ایک ہی بروئے کار آتا ہے کہ ایک شخص ایک ووٹ ،اس کے ساتھ ساتھ اس عمل کو صاف و شفاف بنانے کی بھرپور سعی اور اداروں کو آزادانہ کام کرنے کے مواقع میسر ہوتے ہیںتا کہ معاشرے کے کسی بھی حصے کو اس پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ قانون کی بالادستی اس قدر پختہ ہو چکی ہے کہ اقوام عالم کا طاقتور ترین شخص بھی قانون کے سامنے ایک عام شہری کی طرح پیش ہونے کا پابند ہے اوراس کی امتیازی حیثیت کسی بھی طور اس کو قانون سے مبرانہیں کرتی بلکہ ایسے کسی بھی شخص کی ذمہ داری ایک عام شہری سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مہذب و جمہوری ممالک میں یہ سوچ کہ اخلاقی معیار کا پیمانہ ہمیشہ اشرافیہ کی طرف سے شہریوں کو منتقل ہوتا ہے البتہ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ انفرادی عمل؍سوچ مجموعی طور پر معاشرے کی تشکیل کرتی ہے،جو معیار اشرافیہ کا ہو گا یا جو انفرادی سوچ ہو گی،وہی معاشرے کا مجموعی عکس ظاہر کریگی،لہٰذا مہذب جمہوری معاشروں میں یہ دو طرف عمل بیک وقت بروئے کار آچکا ہے ،نتیجتاً یہ معاشرے آج اوج ثریا کی بلندیوںکو چھو رہے ہیں۔
کرہ ارض کے قریباً تمام تر ممالک اس جمہوری سوچ کے حامی ہو چکے ہیںاور ہر جگہ جمہوریت کسی نہ کسی شکل میں رائج ہے، البتہ یہ الگ بات ہے کہ کئی ممالک میں جمہوریت فقط نام کی حد تک نظر آتی ہے جبکہ اس کی آڑ میں کئی ایک ممالک ہنوز آمریت ؍شہنشاہیت کی مانند خود کو قانون سے بالا تصور کرتے ہیں۔جمہوریت کی بنیادی اساس کے برعکس ان ممالک میں بظاہر عوامی نمائندے منتخب ہونے والے،اپنے اندر آمریت کے جراثیم کو ختم کرنے میں بری طرح ناکام ہیں تو دوسری طرف عوامی حمایت کا حصول بھی مروجہ جمہوری طور طریقوں کے برعکس ممکن بنایا جاتا ہے، جس میں ملکی ادارے ؍افسر شاہی ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یوں ان ممالک میں عوام کو ،جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت کا سامناکرنا پڑتا ہے،کچھ ایسی ہی صورتحال پاکستان کو بھی درپیش ہے اور پاکستانی اشرافیہ گذشتہ کئی دہائیوں سے دائرے کا سفر اختیار کئے ہوئے ہے۔ مجال ہے کہ اس کی اشرافیہ اس دائرے کے سفر کو ایک سیدھی اور راست سمت دے کر پاکستان کی ترقی و خوشحالی کو ممکن بنا سکے بلکہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے کہ ذاتی مفادات اور اناؤں کے حصول کی جنگ مسلسل جاری ہے ،اشرافیہ کسی بھی صورت قانون کے سامنے سرنگوں ہونے کیلئے تیار نہیں بلکہ ایسی قانون سازی کرتی دکھائی دیتی ہے،جو کسی بھی معاشرے کو زوال پذیر کرنے سے نہیں روک سکتی بلکہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو یوں جرائم کی طرف راغب کرتی نظر آتی ہے کہ جس میں جتنا دم ہے،وہ اتنا ملک کو لوٹ سکتا ہے بشرطیکہ اس کا کوئی سیاسی قدکاٹھ ہو۔
بدقسمتی صرف یہ نہیں کہ پاکستان پر چار دور آمریت رہے ہیں بلکہ حقیقی بدقسمتی یہ ہے کہ آمریت کے ان ادوار سے جنم لینے والی وہ بونا سیاسی قیادت ہے،جو اپنے سیاسی فیصلے خود کرنے کی اہل نہیں ،ملکی مفادات کا تعین کرنے اور ان کو محفوظ بنانے کیلئے وژن نہیں بلکہ اس سیاسی قیادت کا مطمع نظر فقط اتنا ہے کہ اقتدار کا حصول صرف ذاتی مفادات تک مرکوز رہے۔ گذشتہ تین دہائیوں کے حکمرانوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاںہے کہ ان حکمرانوں نے،آمر یا سول،اس ملک کے وسائل کو انتہائی بیدردی و بے رحمی سے لوٹا ہے جبکہ ملک و قوم کو مسائل کی ایسی دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دیاہے کہ بظاہر ان سے نکلنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ آزاد ملک کی لگامیں ،کس بے رحمی سے عالمی معاشی اداروں کے ہاتھ تھما دی گئی ہیں کہ اب کسی بھی وقت یہ عالمی معاشی ادارے،اس ملک کی شہ رگ کو آسانی کے ساتھ دبا سکتے ہیں جبکہ سیاسی قیادت اس دوران بیرون ملک بیٹھی ،لوٹ مار کے پیسوں پر عیاشی کرتی دکھائی دیتی ہے۔عوام میںاس وقت بھی سیاسی نو ٹنکی جاری ہے اور ایک طرف عمران خان عوام کو سڑکوں پر مصروف رکھے ہوئے ہیں تو دوسری
طرف بیرون ملک بیٹھی سیاسی قیادت ایک بار پھر اڑان بھرنے کی تیاری کر رہی ہے لیکن شو مئی قسمت کہ ہر مشکل گھڑی میں اپنی جان عزیز رکھتے ہوئے ،سب سے پہلے معاہدوں کے بل بوتے پر فوری بیرون ملک فرار ہو جاتی ہے۔عدالتوں سے قانونی ریلیف ملنے کے امید نہ ہونے پر پارلیمان میں ایسی قانون سازی کی جاتی ہے کہ عدالتیں نئی قانون سازی کے سامنے بے بس ہو جائیں،البتہ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ کیا ایسی قانون سازی کی حیثیت دائمی ہو سکتی ہے؟ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب آئین یا جیورس پروڈنس کے برعکس قانون سازی ہوئی تو اعلیٰ عدالتوں نے ایسی قانون سازی کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا،کیا موجودہ قانون سازی،بالخصوص نیب ترامیم کے حوالے سے عدالتی نظرثانی میں ان ترامیم کو کالعدم یا متصادم قرار دیا جا سکے گا؟
حیرت تو اس امر پر ہوتی ہے کہ پاکستان ہنوز دائروں کے سفر میں مشغول ہے ،پنگ پانگ کا کھیل اپنے پورے عروج پر ہے،عوام کی اکثریت اس وقت عمران خان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے لیکن بدقسمتی سے ماضی میں بھی ،عوامی جذبات پر ردعمل اسی وقت سامنے آتا رہا ہے،جب ذاتی مفادات پورے ہوتے دکھائی دیں،بصورت دیگر عوامی جذبات کی آڑ میں بھی ذاتی مفادات کا حصول ہی مد نظر رہا ہے۔پاکستان جیسے ملک میں عوامی جذبات کی قدر کم ہی دیکھنے میں آئی ہے،ہر مرتبہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے ان جذبات کو روندا گیا ہے اور ان کے برعکس اقتدار کسی اور کے حوالے کیا گیا ہے، عوامی رائے کو روندنے والے بھی کوئی غیر نہیں البتہ غیروں کی خواہشات کو تکمیل دینے والے ضرور ہیں۔ پاکستانی سیاستدانوں کی اکثریت بھی اس تلخ حقیقت کی قائل ہو چکی ہے کہ جمہوریت نامی نظام حکومت پاکستان کیلئے بنا ہی نہیں اور اقتدار کا حصول اسی صورت ممکن ہے جب اقتدار کا ماخذ اس کی اجازت دے ،اس کی حمایت حاصل ہو تو عوام کی اکثریت کسی کھاتے میں نہیں رہتی۔ کم از کم اپنے ہوش و حواس میں تو یہی کھیل مسلسل دیکھنے کو مل رہا ہے اور ہماری سیاسی اشرافیہ اس کھیل میں اپنے پورے وجود کے ساتھ شامل ہے ،اس میں کسی سیاسی رہنما کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ،اپنے سیاسی قد کاٹھ کے مطابق ہر سیاسی رہنما کی یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنا حصہ اپنے جثہ کے مطابق وصول کر سکے۔اس وقت بھی یہی منظر نامہ پاکستانی سیاسی افق پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے اور ہر سیاسی رہنما عوامی حمایت سے برسر اقتدار آنے کی بجائے،عوامی حمایت سے صرف اپنا جثہ بڑھانے کی سعی کرتا نظر آتا ہے تا کہ اقتدار کیلئے ’’بادشاہ گر‘‘ کی حمایت حاصل ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button