Ahmad NaveedColumn

پروفیسر شہناز ملہی ،خورشید درخشاں .. احمد نوید

احمد نوید

 

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
اُن کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
اس شعر کی صداقت اپنی جگہ مسلم ،مگر حقیقت یہ ہے کہ نیشنل کالج آف آرٹس پاکستان میں آرٹ کا وہ تعلیمی ادارہ ہے، جہاں صرف پتھر ہی پگھلائے نہیں جاتے، بلکہ ہیرے بھی تراشے جاتے ہیں اور اگر ہیروں کو تراشنے والے جواہری پروفیسر میڈم شہناز ملہی جیسے ہوں تو معاشروں کے دل شمع علم وآگہی سے منور بھی ہوتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں نیشنل کالج آف آرٹس میں پاکستان کے سیلاب متاثرین کیلئے فنڈز جمع کرنے کیلئے دو روزہ ویلکم فیسٹیول منعقد کیا گیا تھا، طلبہ کی پرفارمنس کے دوران ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ پروفیسر میڈم شہناز ملہی وہاں موجود
نہ ہوتیں اور طلبہ اُنہیں بات کرنے کیلئے مدعو نہ کرتے ۔ استادوں کی استاد شہناز ملہی کو جب فیسٹیول میں خراج تحسین پیش کیا گیا او ر اُنہیں حاضرین محفل سے بات کرنے کی دعوت دی گئی تو نہ صرف وہ خود بہت جذباتی ہو گئیں بلکہ اپنے مخاطب طلبہ اور اساتذہ کو بھی انہوں نے اپنی گفتگو کے سحر میں جکڑ لیا۔
میرا کامل یقین ہے کہ جو شخص عظمت کی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے، وہ اتنا ہی زمین اور مٹی سے جڑ جاتا ہے ،یہ میڈم شہناز ملہی کا ہی کمال تھا کہ انہوں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ میں بہت گنہگار بندی ہوں ۔ یہ عزت ، وقار اور احترام مجھے نیشنل کالج آف آرٹس نے دیا ہے اور صرف میں ہی نہیں بلکہ این سی اے اپنے اُن استادوں کو بھی ماتھے کا جھومر بناتا ہے ، جو دنیا چھوڑ جاتے ہیں مگر این سی اے اُنہیں نہیں چھوڑتا اور اُن کی قد آور فلیکس ڈیزائن کر کے نہ صرف کالج کے اندر آویزاں کی جاتی ہیں بلکہ این سی اے کے باہر داخلی دروازے پر بیچ چوراہے لگائی جاتی ہیں کہ یہ تھے ہمارے استاد ! ہمارا سرمایہ ، ہمارے محسن !
پروفیسرشہناز ملہی نے اپنی جذبات بھری گفتگو میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری کے اس احسن اقدام اور خوبصورت سوچ کر سراہتے ہوئے فر یسکو کے عالمی شہرت یافتہ اُستاد سیف الرحمن کا تذکرہ بھی خصوصی طور پر کیا ، جن کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اُن کی فلیکس بھی کالج کے باہر آویزاں کی گئی تھی ۔
یہاں اس بات کی وضاحت نیشنل کالج آف آرٹس کی عظمت اور تکریم میں مزید اضافہ کرے گی کہ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں این سی
اے وہ پہلا تعلیمی ادارہ ہے جس نے مختلف شعبوں سے وابستہ پاکستان کی مشہور و معروف شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ نیشنل کالج آف آرٹس کے باہر اِن شخصیات کی فلیکس آویزاں کی جاتی ہیں اور اِنہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اِن کی قومی خدمات کو سراہا جاتا ہے۔
دیکھا نہ کوہ کن کو ئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
پروفیسر میڈم شہناز ملہی ستر کی دھائی سے این سی اے سے وابستہ ہیں ۔ کرشماتی شخصیت کی مالک ہیں۔ صرف ایک کالم شہناز ملہی کی علمی ، تعلیمی اور تدریسی خدمات کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ خوش لباس ، خوش گفتار ، خوش کردار ، با ادب اور ان تمام تر خوبیوں کے ساتھ ساتھ
بار عب شخصیت ۔ اُن کی شخصیت کا کلائی میکس اُن کا حسنِ مزاح ہے ۔ وہ جتنی سیکولر ہیں اتنی ہی مذہبی اور نظریاتی بھی ۔ نصف صدی کے لگ بھگ این سی اے سے اُن کی وابستگی پر کئی کتابیں رقم کی جا سکتی ہیں ۔ وہ اُن اساتذہ میں سے ہیں ، جنہیں قدرت نے صلاحیتوں کے وسیع تر خزانوں سے نوازا ہے ۔ بات عقل،منطق یا اخلاق کی ہو ۔ درویشی یا فلسفۂ زندگی زیر بیان ہو۔ اُن کی گفتگو اور تعلیمات سے کم عملی کا پیمانہ کبھی نہیں چھلکا ۔ کتنی حسین بات ہے کہ نصف صدی کے لگ بھگ وہ
این سی اے میں پڑھاتی رہیں ، مگر اُن کا کوئی حریف یا مخالف نہ ہوا۔ جس کی وجہ اُن کا معیار ، سیاق و سباق ، دلائل اور وہ معنی خیز متن تھا ، جس پر وہ عمر بھر گامزن رہیں ۔
تعلیمی اداروں میں کچھ ایسے استاد ہوتے ہیں ، جو اپنے شاگردوں کو خود اعتمادی اور یقین کی دولت سے مالا مال کرتے ہیں ۔ یہی استاد ہوتے ہیں جو مایوس ہوتے ہیں نہ اپنے شاگردوں کو مایوس ہونے دیتے ہیں ۔ میڈم شہناز ملہی اُن میں سے ایک ہیں۔ شاگردوں کی مزاج شناس ، بکھری ہوئی سوچوں کو تربیت دینے کی ماہر، احساس ، ذمہ داری ، اُستاد کے منصب کے فرائض سے مکمل طو رپر آشنا ، پروفیسر شہباز ملہی قریباً پچاس سال سے نیشنل کالج آف آرٹس میں طلبہ کی شریک سفر ہی نہیں بلکہ اُن کی رہبر بھی ہیں ۔ محترمہ شہناز ملہی نے این سی اے میں ہزاروں طلبہ کو ہسٹری آف آرٹ پڑھایا۔ اُنہیں آرٹ کی تفہیم اور سمجھ بوجھ دی ۔ سوچ کے نئے زاویے دئیے ۔
گوتم بدھ نے ایک بار کہا تھا’’آپ کا دشمن آپ کا بہترین استاد ہے ‘‘
یہ فلسفہ یقینی طور پر رواداری ، حوصلہ ، برداشت ، تحمل اور مخالف کی بات کو حوصلے سے سننے اور برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے ۔ پروفیسر شہناز ملہی نے یہی کارنامہ دوست بن کر سر انجام دیا۔ انہوں نے اپنے ہزاروں طلبہ کو صرف آرٹ کی ہسٹری ہی نہیں پڑھائی بلکہ زندگی کی ہسٹری اور جینے کا سلیقہ بھی سیکھایا۔ دوسروں کے احساسات کو قابل وقعت سمجھنا ، جذبہ کی گہرائی ، خلوص اور مثبت نقطہ نظر، آرٹ ، ادب اور زندگی کا گراں قدر تعلق ، این سی اے کے ہزاروں طلبہ نے یہ سب کچھ آپ سے سیکھا۔
پروفیسر میڈم شہناز ملہی صاحبہ کی نیشنل کالج آف آرٹس سے وابستہ نصف صدی کی تعلیمی ، تہذیبی اور اخلاقی خدمات کیلئے یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے ۔
ہر اِک نقشِ قدم شمع فروز اں ہو تا جاتا ہے
جہاں سے وہ گزرتے ہیں ، چراغاں ہوتا جاتا ہے

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button