Abdul Hanan Raja.Column

ماہ میلاد اور سیرت الرسولﷺ .. عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

ماہ میلاد اپنے اندر بے حد برکات لے کر آتا ہے۔ فضائیں درود و سلام سے گونج اٹھتی ہیں اور ہر سو فرحت و مسرت کے شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ مگر موجودہ دور فتن میں جب امت انتشار اور تفرقہ کی وجہ سے ذلت میں اور ہمارے معاشرہ بلکہ دنیائے اسلام سے امن آٹھ چکا، تو کیا ہمیں سیرت النبیﷺ کی طرف رجوع نہیں کرنا چاہیے؟ مدینہ منورہ میں آقا کریمﷺ نے انسانیت کو پہلا چارٹر مواخات مدینہ کی صورت میں دیا کہ مسلمانوں کو جسد واحد بنا کر اپنے درد کو پوری امت کا درد بنا دیا۔ آقاﷺ کے تصور ریاست کی ابتدا محبت، بھائی چارہ اور رواداری پر مبنی جو معاشی و اقتصادی استحکام کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ریاست مدینہ کے تصور پر نوجوان سکالر ڈاکٹر حسن محی الدین نے اپنا مقالہ جو انکی پی ایچ ڈی کا موضوع بھی تھا میں لکھتے ہیں کہ مواخات مدینہ کے بعد چارٹر کا اگلا مرحلہ نو قائم شدہ ریاست کو امن اور بیرونی جارحیت سے محفوظ کرنے کیلئے مدینہ کے ارد گرد کے قبائل، یہود، نصاری اور کفار سے معائدات کا تھا، اور یہ تاریج انسانی کا پہلا میثاق تھا جس میں غیر اقوام اور غیر مذاہب کو آقا کریم ﷺنے ایک امت قرار دیا۔ اس سے قبل تاریخ میں دستاویزی شکل میں اتنی تفصیل کے ساتھ قیام امن کیلئے دیگر مذاہب یا قبائل سے کسی معائدہ کا ثبوت نہیں ملتا۔ یہ معاہدہ جو 61 نکات پر مشتمل تھا، کے ذریعے آپ ﷺنے سیاسی استحکام کو معاشی استحکام سے باہم مربوبط کر دیا کہ مدینہ کے ارد گرد بڑے قبائل اور یہود جو اس وقت سب سے بڑی معاشی قوت بھی تھے، سے امن معائدات کر کے اپنی ریاست کی بنیادیں مضبوط کیں اور پھر پورے بلاد عرب میں اس کے ذریعے اپنی تجارت کو محفوط بنا کر ریاست مدینہ کو معاشی استحکام بخشا۔
چودہ صدیاں گزریں پھر ہوا کیا کہ ہم سیرت الرسولﷺ سے دور ہوئے،مدارس، مساجد، دعوت و تبلیغ نے خوب فروغ پایا مگر کیا وجہ اسوہ رسولؐ کی جھلک معاشرے سے بتدریج غائب ہوتی گئی، محبت کی جگہ نفرت، برداشت کی جگہ تندی، تعریف و توصیف کی بجائے طعنہ زنی، دلیل کی بجائے گالی اور علم کی بجائے جہالت نے فروغ پایا۔ کیوں؟آئیے سیرت الرسول ﷺکی روشنی میں اس کا جواب اور علاج تجویز کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام نے اس پر ایک ضخیم کتاب اور اس موضوع پر ان کے کئی ایک لیکچر بھی ہیں، نصاب تعلیم کی فرسودگی کو اس کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عطاالرحمن بھی موجودہ نصاب تعلیم کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ قرار نہیں دیتے۔ معروف اسلامی سکالر کے مطابق نصاب سے اخلاقیات کا پہلو یکسر نظر انداز کر دیا گیا، حتی کہ مدارس دینیہ کا نصابات میں سیرتﷺ مختصر طور پر پڑھائی جاتی ہے اور مدارس کا یہ نصاب 250 سالہ پرانا اور اس کو دور جدید کے تقاضوں سے تاحال ہم آہنگ نہ کیا گیا۔ نظام المدارس نے اس ضمن میں پہلا قدم اٹھایا اب اس نظام کے تحت طالب علم سات سالہ تدریس کے دوران 270 سے زائد نصابی کتب اور اتنی ہی ریفرنس کتب کے مطالعہ کا پابند ہو گا۔ سکولزاور
یونیورسٹی کے نصاب میں سیرت ﷺکلیتا ختم۔ بدقسمتی یہ کہ انگلش، کیمسٹری سمیت تمام سائنسز کے مضامین بتدریج ترقی اور اعلیٰ معیار کی طرف گئے سوائے اسلامیات کے۔ دعویٰ اسلامی ریاست اور مسلمان ہونے کا مگر عمل۔ والدین اور اساتذہ نے بھی اس ورثہ کی منتقلی کا فریضہ ادا نہ کیا جس سے علم سے سیرت ﷺکا پہلو ختم ہوا تو رویوں میں جہالت عود آئی۔
اخلاقیات،آداب،حسن اخلاق رخصت ہوئے جن کی جگہ متشدد رویوں نے لی، اب ہر طبقہ خواہ وہ سیاسی ہو یا مذہبی شدت پسندی ان کا شعار اور گالم گلوچ، طعن و تشنین، الزام تراشی معاشرے میں عام ہوگئی جس کا مشاہدہ روز مرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ عملی طور پر جسد واحد اور ملت واحدہ کا تصور پاش پاش ہوا، ذہنی سکون برباد اور امن رخصت ہوا۔ رول ماڈل آقا کریمﷺ کی بجائے اپنی پسندیدہ شخصیات بنیں اور ان کی ہر غلط اور اخلاق باختہ باتوں پر بھی واہ واہ، ایک دوسرے کا درد بانٹنے کی بجائے راہوں میں کانٹے اور فریق مخالف جو اپنا مسلم بھائی ہے، کو نیچا دکھانے کیلئے ساری توانائیاں صرف ہونے لگیں۔آقا ﷺنے انصار اور مہاجرین کو جس لڑی میں پرویا وہ ہم نے توڑ دی، معاشرے میں بدامنی، ذہنوں میں بے سکونی، معاشی و اقتصادی بحران اسی وجہ سے ہی تو ہے۔ امت کی جگہ قومیت آئی تو دنیا میں مسلمانوں کا وقار مجروح اور اقوام عالم ہم پر غالب آگئیں۔ ہم معاشیات، اقتصادیات، عمرانیات اور زندگی کے ہر گوشہ میں انکے دست نگر ہو گئے۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button