ColumnM Anwar Griwal

ظلم اور بے حسی! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

سُنا ہے ڈالر نیچے جا رہا ہے۔’ ’وہ ‘‘کہتے ہیں تو درست ہی کہتے ہوں گے، کیونکہ اتنے بڑے عہدوں اور مقاماتِ عالیہ پر بیٹھ کر بھلا کوئی جھوٹ کیوں بولے گا۔ اگر ایسا ویسا ہو بھی جائے تو مناسب نہیں لگتا کہ کسی بہت بڑے عہدیدار وغیرہ کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ڈالر وہ عجوبہ ہے جو عوام الناس کی نگاہ اور پہنچ سے بہت دور اور اونچا ہے۔ عوام اُس کے بارے میں صرف سُن سکتے ہیں، دیکھ یا چھو نہیں سکتے۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈالر اوپر جائے گا تو ملک (خاکم بدہن) دیوالیہ ہونے کی طرف جائے گا، اور اگر روپیہ اوپر جائے گا تو ملک میں معاشی استحکام پیدا ہوگا۔ جس طرح بجٹ کو الفاظ کا گورکھ دھندہ کہا جاتا ہے، اسی طرح یہ سٹاک ایکسچینج نامی کوئی چیز بھی عوام کی سمجھ سے بالا تر ہی ہے، معیشت کے بارے میں الجھی ہوئی بحثیں عوام کی ضرورت بھی نہیں ۔سٹاک ایکسچینج مندی کا شکار ہو، یا کاروبار عروج پر ہو، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔
عوام اخبار میں پڑھتے ہیں کہ ہر دوسرے چوتھے روز وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ وغیرہ نے مزید کسی مشیر کا تقر ر کر دیا۔ خوشخبری ساتھ یہ سنائی جاتی ہے کہ موصوف کا درجہ وزیر کے برابر ہوگا۔ اُن کے چاہنے والے خوش ہوتے ہیں اور مبارکبادوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ حکمران نمک کی کان میں رہتے ہیں، جو بھی اِس کان میں جاتا ہے، وہ نمک بن جاتا ہے، خواہ وہ تجربہ کار پی ڈی ایم ہو، یا ریاستِ مدینہ کی دعویدار پی ٹی آئی۔ کہنے کو تو یہ کان نمک کی ہوتی ہے، مگر یہ جس کان میں جاتے ہیں، عیاشی ، مراعات اور لوٹ مار ہی اُن کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے۔ عوام اپنے اپنے پسندیدہ حکمرانوں کیلئے جس قدر بھی جذباتی ہو جائیں، دلیلیں تلاش کرتے پھریں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کسی حکمران نے بھی اپنی ظالمانہ عیاشیوں میں ایک روپیہ بھی کمی نہیں کی، بیوروکریسی کے مفت پٹرول میں سے ایک بُوند بھی کم نہیں کی۔ اگر کہا جائے کہ نون لیگ اور پی پی نے تیس سال تک حکومت کی، ملک پر آنے والے تمام مسائل انہی کی وجہ سے آئے ہیں، تو
بات دل کو لگتی ہے۔ مگر افسوس کہ عمران خان نے اپنے پونے چار سالہ دور میں کتنی عیاشیوں کو کم کیا، وزراء اور مشیروںکے ٹولے اور اُن کی مراعات میں کتنی کچھ کمی ہوئی۔ بیوروکریسی کو کہاں تک حدود میں رہنے کا پابند کیا؟ کتنے ’چوروں‘ کو پکڑ کر انجام تک پہنچایا، کتنی دولت اُن سے چھین کر واپس قومی خزانے میں جمع کروائی؟
ہماری تمام حکومتیں عیاشیوں، اپنے مفادات ، مراعات اور غیر ملکی ایجنڈے کیلئے ہمیشہ یکجان ہو جاتی ہیں۔ جب ملک میں مہنگائی کا جِن بے قابو ہو رہا تھا، جب ڈالر رو بہ پرواز تھا، جب غربت میں اضافہ ہو رہا تھا، جب پٹرول کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی تھیں، تو کس حکمران نے اپنی اور اپنے وزیروں مشیروں کی تعداد میں کمی کی، کس نے مفت پٹرول لینے والوں کا پٹرول بند کیا، کس نے ممبرانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں کمی کا اعلان کیا؟ کون سا ممبر پارلیمنٹ ہو گا جو کروڑ پتی سے کم ہوگا (الا ماشاء اللہ) ۔ ملک میں معاشی بحران کے موقع پر کسی درد مند کے دل میں خیال نہیں آیا کہ عوام مر رہے ہیں، عملی طور پر بے بس ہو چکے ہیں، بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، چلیں ہم سرکاری
عیاشیاں ہی کم کر دیں۔ بے حسی اور سنگدلی نے ہمارے نمائندوں کو اپنے آہنی حصار میں لے رکھا ہے، زبانی دعوئوں میں عوام کے غم میں گُھلے جاتے ہیں ، عملی طور پر منافقت کا عروج ہے۔
سیلاب کو ہی دیکھ لیجئے، شاید ہی کسی متاثرہ علاقے کے نمائندے بھر پور طریقے سے باہر نکلے ہوں، اور اپنے پریشان حال بھائیوں کا حال پوچھا ہو ۔ دوسری طرف عوام وہ غلام ہیں، جنہوں نے اُنہی کو کاندھوں پر اٹھانا ہے، جو عوام کو جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے۔ سیلاب زدگان کیلئے بیرونی ممالک سے اربوں روپے کے اعلانات سامنے آئے، کسی کو کچھ ملا؟ باہر سے آنے والی چیزوں کو تقسیم کرنا بھی جگرے کی بات ہے، بڑے بڑوں کی رالیں ٹپکنے لگتی ہیں، نام نہاد اشرافیہ اور مقتدر طبقے ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں، اِ ن کے پیٹ نہیں بھرتے، نہ مراعات سے، نہ رشوتوں سے ، نہ کمیشن سے اور نہ ہی اندرونی و بیرونی امداد یا پھر لوٹ مار سے۔ حکومت سے غیر ممالک کے امداد کے وعدے نہ جانے کب پورے ہوں گے؟ اور اگر پورے ہورہے ہیں تو کسی کو خبر ہو تو سوشل میڈیا کی زینت بنائے۔اُدھر پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما نے بھی اربوں روپے اکٹھے کرنے کا اعلان کیا تھا، اُن کی بھی کچھ خبر عوام کو نہیں ملی۔ اگر کچھ ہوا ہوتا ، سوشل میڈیا تو یقیناً آسمان سر پر اٹھا لیتا۔
مفادات میں، عیاشیوں میں ، پروٹوکول میں تمام بڑی پارٹیاں یکسو اور یکجان ہیں۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور انہیں بے وقوف بنانے کا البتہ ہر کسی کا اپنا اپنا بندوبست ہے۔ کسی بہت طاقت ور کو مدت ملازمت میں توسیع دینی ہو، یا کبھی ممبرانِ پارلیمنٹ کی مراعات اور عیاشیوں میں اضافہ کرنا ہو، یا ٹرانس جینڈر جیسے قوانین کی حمایت کرنا ہو ، یا موٹر وے کا ٹیکس معاف کرنا ہو تو یہ سب ایک ہو جاتے ہیں، ہاں ملکی اور عوامی مفاد میں قوم نے اُنہی کبھی اکٹھے نہیں دیکھا۔ اس لئے یہ فیصلہ کن بات ہے کہ وطنِ عزیز میںعوام کی بہتری کی کوئی گنجائش نہیں۔ کسی نے تیس سال تک حکومت کرکے اپنا آپ دکھا دیا تو کسی نے چار سال میں کچھ بھی نہ کرکے اپنی اہلیت ظاہر کردی۔ عوام انہی سے تنگ ہے، اور ستم یہ ہے کہ انہی کے گُن گاتی ہے، اور انہی کو سر پر بٹھاتی ہے۔ بجلی کے بل ابھی تک عوام کو خود کشی کی ترغیب دلا رہے ہیں، اور حکمرانوں سمیت سیاستدان اپنی دُھن میں مگن ہیں۔ واپڈا والوں کے اقدامات غریب لوگوں کو بددعائوں پر مجبور کر رہے ہیں، مظلوم کی آہ یقیناً عرش ِ الٰہی تک رسائی رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کمزوروں کا خون پینے والے حکمران اور ان کے ادارے آخر کیا جواب دیں گے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button