ColumnJabaar Ch

دل کی باتیں .. جبارچودھری

جبارچودھری

 

میاں نوازشریف کا عدالتی اور قانونی اسٹیٹس تونہیں بدلا لیکن پاکستان میں سیاست کا آسمان بہت سے رنگ بدل چکا ہے۔آسمان نے رنگ اس لیے بدلا ہے کیونکہ نوازشریف بدل چکاہے ۔گوجرانوالہ والا نوازشریف واپس نوے کی دہائی والا نوازشریف بن چکا ہے۔وہ نوازشریف جس کی پریس کانفرنس تو دور اس کی تصویر ٹی وی پردکھانے پرپابندی تھی۔ آج اس نوازشریف کے’’دل کی باتیں‘‘ پاکستان کے میڈیا پر باجماعت دکھانے کا وقت آگیا ہے۔اس تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ میاں نوازشریف نے ووٹ کو جو عزت دلوانی تھی وہ دلواچکے ہیں ۔جو سرخ لکیر انہوں نے کراس کی تھی وہ اب اس لکیرکوچوم کر نہ صرف واپس آگئے ہیں بلکہ خود اس سرخ لکیر پر مجاور اور محافظ بن کربھی بیٹھ گئے ہیں۔
میاں نوازشریف نے جو لندن میں مریم نوازکوساتھ بٹھا کرطویل گفتگو کی ہے اس کا تجزیہ کئی لحاظ سے اہم اورآنے والی سیاست کا پتا دیتا ہے۔ دیکھا جائے تو میاں نوازشریف نے کوئی بھی نئی بات نہیں کی لیکن ان کی اس وقت کئی گئی باتوں سے مستقبل کی سیاسی حکمت عملی اور سیاسی بیانیہ سامنے آتا ہے۔میاں نوازشریف نے اس گفتگو سے عملی طورپرپاکستان کی سیاست میں اپنی ری لانچنگ اورانتخابی مہم کے خدوخال واضح کیے ہیں ۔
نوازشریف کو اس بات کا یقین ہے کہ فی الحال ان کی سیاست میں واپسی شاید نہیں ہورہی کہ تاحیات نااہلی کے قانون کا تبدیل ہونا شاید اس ماحول میں نون لیگ کو کم فائدہ دے گا لیکن تنقید کیلئے ان کے حریف عمران خان کو ایک اور ایشوضرورمہیا کردے گا۔اس لیے نوازشریف کی ساری جدوجہد مریم نوازکو اپنی جگہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابل قبول بنانے پرمرکوز ہے۔کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ قیادت کو مریم نوازسے ایک نہیں درجنوں شکایات ہیں ۔مریم بھلے انکارکریں لیکن انہوں نے یہ شکایات دور کرنے کیلئے محنت بھی کی ہے ۔جب بھی ان کو کہا گیا انہوں نے اپنے ٹویٹرکو خاموشی کی چادر پہنا دی۔ جب کہا گیا کہ فلاں ٹارگٹ ہے تو اس ٹارگٹ کو ہی ہِٹ کیا گیا اور ایک عرصہ ہواہے مریم کے کسی قول یافعل میں موجودہ چیف کا ذکر تک نہیں آیا۔یہ ایسی علامتیں ہیں جن سے پتا چلتاہے کہ مریم وفاق میں آئندہ کوئی بھی ذمہ داری کیلئے خود کو قابل قبول بنانے کیلئے تیارہیں۔میاں نوازشریف کی بھی یہی کوشش ہے کہ وہ نہیں تو مریم نواز کو وزارت عظمیٰ کی امیدوارکے طورپرتسلیم کرلیا جائے اورجب بھی نوازشریف کی یہ شرط مان لی گئی وہ اس وقت پاکستان آنے پرتیار ہوجائیں گے۔
لندن والی گفتگو میں کچھ لوگوں کو امید تھی کہ نوازشریف شاید اپنی واپسی کا کوئی ٹائم دیں گے لیکن وہ اس طرف نہیں آئے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس طرف آئیں گے کیونکہ وہ وہاں بیٹھ کر ہی اگلے الیکشن اورسیٹ اپ کا نقشہ بناکر منظورکروائیں گے اور اس میں مریم نواز بطور وزیراعظم ان کی امیدوارہوں گی۔انہوں نے شہبازشریف کو بھی قائل کرنا ہے کہ وہ واپس پنجاب میں ہی کام کریں کیونکہ وہ اچھے ایڈمنسٹریٹر ہیں اوران کی صلاحیتوں کا بہترین استعمال پنجاب میں ہی ممکن ہے ۔مرکزمیں اچھے منتظم کی نہیں بلکہ ایک کرشماتی لیڈر کی سیاست کی ضرورت ہوتی ہے جو فی الحال شہبازشریف ثابت نہیں ہوئے۔
مریم نوازکے علاوہ اگلی بات ان کی انتخابی مہم اور بیانیے کی ہے۔نوازشریف نے اپنی گفتگو میں یہ بتادیا ہے کہ وہ اگلا الیکشن دو چیزوں پر لڑیں گے۔ پہلی ہے ہمدردی۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام ہمدردی پر ووٹ دیتی ہے۔اس کا ثبوت پہلے بھی کئی بار آچکا ہے۔ دوہزار آٹھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہی ہمدردی کے ووٹ لے کر بن گئی تھی۔ بے نظیر بھٹوکی شہادت کے بعد ہوئے انتخابات میں آصف زرداری کو اس ملک کے عوام نے ووٹ دے کر حکومت تھمادی تھی۔ اورتواور اپنے چار سالہ دورمیں پاکستان کی ہر شعبے میں تباہی کرنے والے عمران خان صاحب نے جب اپنے خلاف عدم اعتماد کو سازش بناکر پیش کیا توان کی اپنی پارٹی کے وہ کارکن جو خود مہنگائی کی وجہ سے منہ چھپاتے تھے گلیوں میں نکل کر کپتان کپتان کرنے لگے تھے۔ نوازشریف بھی اب یہی کارڈ کھیلیں گے اور اس کو پہلے نمبرپر رکھیں گے کہ ان کے ساتھ بہت زیادتی کی گئی ہے ۔ان سے انتقام لیا گیا ہے۔ ان سے لڑائی کی سزا پاکستان کو دی گئی ہے۔وہ مظلوم ہیں ۔دیکھیں کس طرح ان کو اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑکر واپس آنا پڑااور آخری لمحات میں ان کی بیگم کلثوم نوازسے بات تک کروانے سے انکار کردیا
گیا۔یہ ’’دل کی باتیں‘‘ وہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔اس کا مقصد خود کو مظلوم بناکر پیش کرناہے تاکہ جب وہ واپس آئیں تو عدالتیں بھی ان کو آسانی سے ریلیف فراہم کرسکیں اور لوگ ہمدردی میں ووٹ بھی دیں۔
دوسری چیز جس کو وہ اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنائیں گے وہ ان کے اپنے دور کی کارکردگی ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی کوئی کارکردگی ایسی نہیں جس پر نون لیگ الیکشن لڑ سکے۔اس دورکو نوازشریف اپنی حکومت کے طورپرنہ تسلیم کریں گے اور نہ ہی اس کو اوون کریں گے۔ اس حکومت کا استعمال صرف یہ کریڈٹ لینے کیلئے ہوگا کہ ہم نے عمران خان کی طرف سے کی گئی تباہی کو سمیٹا ہے اور پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچالیا ہے اس کے علاوہ اس کی بات کم کم ہی ہوگی۔نوازشریف دوہزار تیرہ اور سترہ کا پاکستان لوگوں کو یاد کروائیں گے کہ ان کا دور سنہری دور تھا۔ اس وقت معیشت بہترین تھی۔ مہنگائی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ اشیا کی قیمتیں سب کی پہنچ میں تھیں۔ان کو اگر راستے سے نہ ہٹایا جاتا تو پاکستان مزید ترقی کرتا لیکن چند لوگوں نے ان سے انتقام لینے کیلئے پاکستان کو برباد کروادیا وغیرہ وغیرہ۔
یہ میاں نوازشریف کی سوچ ہے اور اس پر میرا تجزیہ ہے ۔ان کی گفتگو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کا فی الحال فوری پاکستان واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ۔ اس کی وجہ کیا ہے یہ معلوم نہیں ۔شاید وہ یقین دہانی چاہ رہے ہوں کہ واپس آنے پر ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوجیسا اسحاق ڈار کے ساتھ ہوا ہے،لیکن نوازشریف کا اسٹیٹس اسحاق ڈار سے مختلف ہے۔اسحاق ڈار عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے اشتہاری اور مفرور تھے لیکن نواز شریف جیل میں سزاکاٹ رہے تھے ۔عدالتی مفرور اور اشتہاری کا معاملہ تو اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب ملزم عدالت آکر سرنڈرکردیتا ہے ،لیکن اگر آپ سزا یافتہ قیدی ہوں تو آپ کو جیل جانا پڑتا ہے اورپھر ضمانت یا بریت ممکن ہے۔اس لیے نواز شریف جب بھی آئیں گے انہیں لازمی جیل جانا پڑے گا اور انہیں جیل جانا بھی چاہیے کہ پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو یہاں کے قانون کی پاسداری بھی لازمی ہے۔ویسے بھی وہ ساری قید اپنے لندن فلیٹس میں ہی کاٹ رہے ہیں توکچھ وقت پاکستان کی جیلوں میں بھی گزارنا چاہیے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button