تازہ ترینخبریںصحتصحت و سائنس

چھاتی کے کینسر سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

جسم کے پٹھے چھوٹے خلیوں سے مل کر بنتے ہیں اور یہی خلیے اگربےقابو انداز میں بڑھنا شروع ہو جائیں اور گلٹی بنا لیں، تو یہ مرض کینسر بن جاتا ہے۔ چھاتی میں بننے والی گلٹی (بریسٹ لمپس) کو پولی سسٹک یا فائبرو سسٹک کہا جاتا ہے۔

یہ سائز میں بڑھ بھی سکتی ہے اور اس کی جڑیں چھاتی میں پھیل سکتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں چھاتی میں تکلیف اور ساخت میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ مریض اور مرض کی نوعیت کے مطابق یہ علامات مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔

چھاتی کے اندر، باہر یا نیچے کی جانب زخم بڑھ کر بعض اوقات کینسر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کی شکایت25 فیصد خواتین کو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہو سکتی ہے، تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسی کئی گلٹیاں کینسر کا باعث نہیں ہوتیں اور اکثر غیر مضر ہوتی ہیں۔ مگر ان گلٹیوں کی موجودگی میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

بریسٹ کینسر عموماً خواتین میں ہوتا ہے لیکن مَردوں میں بھی اس کے خطرات پائے جاتے ہیں مگر ایسے کیسز بہت نایاب ہیں۔ یہ کینسر انفیکشن نہیں کرتا اور دوسروں میں منتقل نہیں ہوتا، لہٰذا بریسٹ کینسر یا کسی بھی دوسرے قسم کے کینسر سے متاثرہ مریض سے میل جول قائم رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور نا ہی اس حوالے سے متاثرہ مریض سے کوئی امتیازی سلوک روا رکھنا چاہیے۔

بریسٹ کینسر کی وجوہات

ذیل میں بیان کی گئی چند بنیادی باتیں بریسٹ کینسر کی وجہ بنتی ہیں۔

٭ خواتین میں ہارمونز کا غیر متوازن ہونا بریسٹ کینسر کا ایک سبب ہے۔

٭ جسم میں ایسٹروجن ہارمون کی زیادتی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔

٭ لڑکیوں کی تاخیر سے شادی یا زائد عمر میں بچے کی پیدائش ہونا۔ تاہم، جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں، ان میں بریسٹ کینسر کا امکان 4فیصد کم ہو جاتا ہے۔

٭ تقریباً 10فیصد بریسٹ کینسر جینیاتی نقائص کی وجہ سے ہوتاہے، ان نقائص کی حامل خواتین میں اس مرض کے 80فیصد امکانات ہوتے ہیں۔

٭ خواتین کا غیرصحت مندانہ طرزِ زندگی اور غیر متوازن خوراک لینا۔

بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

بریسٹ کینسر کی جلد تشخیص ہی اس مرض کو بڑھنے سے روکنے اور علاج کا ذریعہ بنتا ہے لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب اس مرض کے حوالے سے بنیادی آگاہی حاصل ہوگی۔ لہٰذا، خواتین کا خود تشخیصی عمل کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔

انہیں پہلے گھر میں خود اپنا معائنہ کرنا چاہیے اور چھاتی میں کسی بھی قسم کی غیرمعمولی تبدیلی محسوس ہونے پر فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

اگر بریسٹ کینسر کا جلد پتہ چل جائے اور مناسب تشخیص اور علاج دستیاب ہوجائے تو اس بات کے قوی امکانات ہوتے ہیں کہ یہ بیماری ٹھیک ہوجائے۔

تاخیر سے پتہ چلنے کی صورت میں اکثر علاج معالجہ آپشن نہیں رہتا، ایسے معاملات میں تکلیف کی شدت کو کم کرنے کیلئے مریض کو دوا دی جاتی ہے۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بریسٹ کینسر کے لیے اسکریننگ ٹیسٹ 40 سال کی عمر میں شروع کیاجاتا ہے، تاہم سالانہ میموگرافی اور مرض کی بروقت تشخیص کے ذریعے اس مرض سے بچا جاسکتا ہے۔

معاشرے میں اس موذی مرض کے حوالے سے جتنی زیادہ آگہی ہوگی تو عین ممکن ہے کہ اس مرض سے ہونے والی اموات اور مرض کی شرح میں کمی آسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button