ColumnNasir Naqvi

خالی ہاتھ! ۔۔ ناصر نقوی

ناصر نقوی

خالی ہاتھ!

کسی آدم زادے کی تلاشی لیں ، اس کی ظاہر ی حیثیت کچھ بھی ہو ؟ وہ خواہشات کا غلام ہی ملے گا ، جو غریب ہے وہ امیر ہونے کا خواہش مند ہے، جو امیر ہے وہ امیر تر ین ،اس لیے کہ ترقی کرنا ہر کسی کا حق ہے، یہ الگ بات ہے کہ غریب کے مسائل زیادہ اور وسائل کم ہونے پر اسے ترقی کی سیڑھیاں عبور کرنے کیلئے رکاوٹوں کا در یا پار کرنا پڑتا ہے، اگر اس کی کوشش درست سمت ہو تو اس کی جدو جہد کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی ہے لیکن کوتائی اور غلط سمت کی صورت میں وہ خالی ہاتھ رہ جاتا ہے، یعنی غریب، غریب تر ہو کر اپنے خواب ادھورے رہنے پر ساری زندگی قسمت کو برا بھلا کہتا ہوا گزارنا اپنا نصیب سمجھتا ہے، اسے قدرت مواقع بھی فراہم کرتی ہے لیکن ناکامی اور مایوسی میں اپنے حقیقی راستے سے دور نکل جاتا ہے اور پھر ایک اور زندگی کے اختتام پر ہار گئے انسان کی واپسی پر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوتا ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی اس سے مختلف ہر گز نہیں، سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والا اَمیر زادہ ، لامحدود وسائل میں زندگی کا ہر رنگ نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ اس سے بھر پور انداز میں لطف اندوز ہوتا ہے اسے اپنے خاندانی وسائل اور روایات میں ترقی وخوشحالی کیلئے بہترین مواقع بھی ملتے ہیں پھر وہ جائز وناجائز کی پروا بھی نہیں کرتا ، دھن دولت کے ساتھ ساتھ خاندانی سہولت کاری سے جائیداد ، زمینوں اور فیکٹریوں میں خاطر خواہ اضافہ کرتا ہے۔ بہترین قابل رشک زندگی کے باعث معاشرے میں بسنے والوں کیلئے متاثر کن شخصیت بھی بن جاتا ہے لیکن جب زندگی کا چراغ گل ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ بھی خالی ہی ہوتے ہیں اس کا اکٹھا کیا ہوا سارا مال اور جائز وناجائز سب کا سب یہی رہ جاتاہے ، حقیقت یہی ہے کہ سب جانتے ہیں کہ کفن میں جیب نہیں ہوتی پھر بھی خواہشات ، لالچ اور حرص و ہوس میں وہ کچھ کر جاتا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہئے تھا پھر یقیناً یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اس پڑھے لکھے دنیا دار
اور عقل و دانش کے پیکر شخص نے اپنی زندگی میں یہ سب کچھ کیوں نہیں سوچا کہ سکندر جب دنیا سے گیا تو دونوں ہاتھ خالی تھے ، تو بھلا میری کیا اوقات ؟
یہ سارے واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہر زی شعور کے سامنے ہوتے ہیں لیکن خواہشات ، لالچ اور طمع انہیں کچھ سوچنے اور سمجھنے نہیں دیتا ، میری جمع تفریق میں یہ ساری کہانی تضاد بیانی کا شاہکار ہے۔ جدید ترقی یافتہ دور میں ماضی کی روایات حلال وحرام کی تمیز بالائے طاق رکھ کر سب کے سب ایک دوسرے پر الزام لگا تے ہوئے جھوٹ بول کر زندگی کے دوہرے معیار پر جی رہے ہیں ایسے میں کیونکر مثبت نتائج نکل سکتے ہیں، دنیا کی رنگینیوں کے غلام بن کر، ہم اور آپ ہی قصور وار نہیں ، معاشرے کے کرتا دھرتا ذمہ داران بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ 75 سالہ دور کے حکمرانوں کا جائزہ لیں تو بھی تضاد بیانی انتہاء پر دکھائی دیتی ہے نہ کسی جمہوری لیڈر نے اپنے انتخابی منشور کے مطابق کچھ کیا اور نہ ہی ملک کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ کرنے والے آمروں نے اپنے پہلے قومی خطاب کی پاسداری کی ،اسلام اور اسلامی حکومت کا پیغام دے کر مرد حق ضیاء الحق نے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی اور 90 روز میں انتخاب کا وعدہ کر کے 12 سال اقتدار اپنا حق سمجھا امریکہ کی خوشنودی میں جہاد افغانستان پر عمل در آمد کر کے روس کے ٹکڑے کرائے اور ہمیں طالبان کا تحفہ زندگی بھر کیلئے دے دیا ، امریکہ بہادر نے اپنی دوستی اور محبت پر بہترین محسن کشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھٹو
صاحب کو تختہ دار پر پہنچا دیا اور اپنے سہولت کار کو ساتھیوں سمیت جہاز حادثے میں مروا دیا پھر بھی ہمارے حکمران چین اور روس سے دوستی کا دم بھرنے کے باوجود امریکہ کی آنکھوں کا تارا ہی بننے کیلئے سر گرداں ہیں ۔ٹائیگر عمران خاں نیازی امریکہ مخالف بیانیے پر مقبولیت حاصل کرنے کے باوجود پس پردہ دوستی کی کوششوں میں نہ صرف مصروف ہیں بلکہ وہ ’’تعلقات عامہ‘‘ کی ایک کمپنی کی خدمات حاصل کر کے اپنا الو سیدھا کرنے کی فکر میں ہیں ، ذرا سوچیں کہ یہ کیسی اعلیٰ متضاد بیانی ہے، عوامی اجتماعات میں اتنی مخالفت کہ قوم امریکہ کو عمران خان کا دشمن نمبر ون سمجھنے پر آمادہ ہو گئی لیکن آڈیو لیکس میں ایک ہی پیغام سب پر بھاری ہے کہ امریکہ کا نام نہیں لینا ، پھر بھی خود جلسے میں امریکہ امریکہ کا شور مچا کر خود ہی راز فاش کر دیتے ہیں، آخر اس کارنامے کے بھی کچھ نہ کچھ مقاصد تو ہوں گے، قوم کا رویہ بھی اس سے مختلف ہر گز نہیں آج امریکن ایمبسی میں ویزے کے حصول میں قطار در قطار لوگوں کی دلچسپی دیکھی جاسکتی ہے یقیناً یہ انداز ان دنوں کی پیدوار نہیں ، برسوں اس تضاد بیانی کی پرورش کی گئی پھر کہیں جاکر ایسی نئی نسل بنی ہے جو اس تضاد بیانی میں اپنا حصہ ڈال کر لوٹا رہی ہے اس روایت کو پروان چڑھانے میں سیاستدانوں کی محنت بھی شامل ہے، جو سیاسی تبدیلی کا اندازہ اشاروں سے کر لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر الیکشن سے پہلے مختلف سیاست دان پارٹی بدلنے کے عادی ہیں لیکن ادھر ڈوبے ادھر نکلے کی خصوصیات کا اندازہ موجود دور کے مقبول لیڈر اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے سیاسی غوطوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
عمران خان آج بھی یو ٹرن ماسٹر کی حیثیت سے جانے پہنچانے جاتے ہیں ان کی صلاحیتوں
کے پیچھے برسوں کی ریاضیت شامل ہے۔ خان اعظم دور حاضر کے مقبول ، ہر دلعزیز رہنماء ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ 26 سال اس سیاسی دشت کی سیاحی کی ہے، انہیں کسی کوچ کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی اَب ہے۔1993 میں وہ نواز شریف کے ساتھ تھے لیکن 1999میں انہوں نے زبر دستی کے صدر پرویز مشرف کا دم بھرا اور 2000 تک ان کے گن گاتے ہوئے ریفرنڈم میں بھی ان کی معاونت کی پھر 2001ء میں اسلام پسندی میں اسلامی ٹچ کی خاطر طالبان کی حمایت کی جبکہ 2002 کی اسمبلی میں وزیر اعظم کا ووٹ اسلامی ٹچ کیلئے مولانا فضل الرحمان کو دے دیا لیکن 2006 میں پرویز مشرف کے فیصلے پر انہیں افتخار چودھری اچھے لگنے لگے، 2008 میں قاضی حسین احمد کی قربت حاصل کی لہٰذا 2013 میں خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کے ہم آواز بنے پھر 2014 میں دھرنے کی باری آئی تو وہ اپنے کزن ڈاکٹر طاہر القادری کے ہم سفر بن گئے لیکن 2015 کے بلدیاتی انتخاب میں عمران خان نے منفرد پالیسی کو سہارا بناتے ہوئے کراچی میں ایم کیو ایم، لاہور میں مسلم لیگ نون، مردان میں جے یو آئی اور بونیر میں اے این پی کا ساتھ دیا جبکہ 2016کے سینیٹ الیکشن میں عمران خان جماعت اسلامی اور مسلم لیگ نون کے ہمنواء تھے، پھر بھی 2018 کے سینیٹ الیکشن میں چیئرمین شپ کیلئے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوئے، اس عظیم جدو جہد اور سیاسی بصیرت کے بعد بھی اگر مریم نواز عمران خان کیلئے کسی کوچ کی بات کریں تو یقیناً ان کا علاج ہونا چاہیے کیونکہ ان کے تمام چاہنے والے متفق ہیں کہ عمران خان وہ واحد لیڈر ہیں جو قریباً 22 سال سے چور اچکوں اور کرپٹ ٹولے کے خلاف تنے تنہا لڑ رہے ہیں اب ان سے کون پوچھنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ آج جن چوروں اور ڈاکوئوں کا پاکستان پر راج ہے، مختلف ادوار میں آپ بھی ان کا ساتھ دیتے رہے ہیں تو جواب یہی ملے گا کہ اس وقت یہ لوگ چور نہیں تھے ، جب یہ سب چوروں کا ٹولہ بن کر اکٹھے ہوئے تو میں ریاست مدینہ کا خواب دیکھ کر نظام انصاف اور احتساب کی بات کی ، میرے اس نعرے سے گھبرا کر ان سب کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور میرے خلاف گٹھ جوڑ کر لیا، قومی خزانہ ان لوگوں نے لوٹا مہنگائی ، بے روز گاری اور معاشی بحران پیدا کیا اور الزام مجھ پر لگا دیا توشہ خانہ سے کیا صرف عمران خان نے تحفہ خریدا ہے ،فارن فنڈنگ صرف تحریک انصاف کا مسئلہ نہیں ، دوسری پارٹیوں کو بھی چیک کیا جائے ، خان اعظم پوری ذمہ داری سے کہتے ہیں نہ پاکستان میں میرا کوئی کاروبار ہے اور نہ ہی بیرون ملک بینکوں میں میری دولت، میرے ہاتھ صاف اور خالی ہیں کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن ان سب چوروں ، لٹیروں کو معلوم ہے کہ ان کے ہاتھ اور منہ رنگے ہوئے ہیں میں انہیں بے نقاب کر کے اصلی چہرہ قوم کو دکھائوں گا۔ ملکی حالات سیاسی معاشی اور اخلاقی برتری کی دلدل میں پھنستے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں لیکن جنہیں محسوس کرنا چاہیے وہ ابھی بھی آنکھیں چرا رہے ہیں، اس وقت پاکستان 75 سال کا ہو چکا ہے اس کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماء بھی اکثر ستر کی دہائی میں ہیں یعنی بونس کی زندگی سب کی قسمت سے چل رہی ہے پھر بھی ہر کوئی سامان سو برس کے چکر میں جمع کرنا اپنا فرض سمجھ رہا ہے ،جو بیمار ہیں ان کے علاوہ بھی کسی کو زندگی پر بھروسہ نہیں لیکن کسی کو مملکت پاکستان سے زیادہ اپنی انا ، ضد اور منصب کی فکر ہے جو ہر صورت عارضی ہے، سب کیا دھرا اسی دنیا میں رہ جانا ہے واپسی تو خالی ہاتھ ہی ہوگی، یہی حقیقی اصول ہے، جو ملک و ملت کیلئے کچھ کر گئے وہی آج یاد کیے جاتے ہیں، ورنہ بڑے بڑے نامی گرامی کب کے فراموش ہو چکے ہیں، بس ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ انسان خالی ہاتھ دنیا میں آیا اور خالی ہاتھ واپس جانا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button