Columnمحمد مبشر انوار

ہوائیں! .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

ماحولیاتی خوبصورتی کیلئے اللہ رب العزت نے وطن عزیز کو چار خوبصورت موسموںسے نواز رکھا ہے اور پاکستانی ان موسموں سے بھرپور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کسی کو سردی پسند ہے تو کوئی بہار کا دلدادہ ہے جبکہ کھیتوں میں کام کرنے والے ،گرمی سے بھی خوب چاہت رکھتے ہیں کہ موسم گرما کئی ایک اجناس کیلئے انتہائی ضروری اور کاشتکار کیلئے نعمت سے کم نہیں،اسی طرح کچھ اجناس کیلئے ساون بھادوں کی رم جھم بھی لازم ہے ۔یوں بحیثیت مجموعی اللہ رب العزت کا پاکستان پر یہ خصوصی انعام ہے کہ اس کو اتنے بھرپور موسموں سے نوازا ہے جو کسی حد تک اس امر کا غماز بھی ہے کہ پاکستان بذات خود اللہ کا انعام اور کسی خاص مقصد کیلئے معرض وجود میں آیا ہے۔بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان حاصل کرنے کے مقاصد کماحقہ پورے نہیں ہو رہے اور پاکستانی آزادی جیسی نعمت کے حقدار ہی نہ تھے،یہ وہ فرسودہ سوچ ہے جو پاکستان کے ہی بیشتر افراد اُگلتے نظر آتے ہیں،ان میں سے کچھ ایسے ہیں،جنہیں نظام نے کچھ دینے کی بجائے ان کی رہی سہی جمع پونجی بھی چھین لی ہے تو کچھ بیرونی آقاؤں کے ٹکڑوں پر پلتے ہوئے،پاکستان اور پاکستانیوں کے عزم کو مسلسل زمین بوس کرنے کی گھناؤنی سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔دوسری طرف اکثریت پاکستانیوں کی ایسی ہے جو آج بھی پاکستان کو اللہ رب العزت کا انعام سمجھتی ہے ،اس کی تکریم کرتی ہے،اس کی فلاح و بہبود اور ترقی کی خواہشمند ہے لیکن اس پر قابض حکمرانوں کی نفسانفسی،لوٹ مار اور ماورائے قانون اقدامات سے شدید نفرت کرتی ہے لیکن ان قابضین کی طاقت یا پس پردہ جوڑتوڑ کے ہاتھوں سخت پریشان ہے کہ باربار آزمائے ہوئے حکمران ہی ملک پر مسلط نظر آتے ہیں۔ درحقیقت یہ وہ مختلف سیاسی موسم ہے جو باقی قدرتی موسموں کو ایک بلا کی صورت نگل چکا ہے اور پاکستانی اس عفریت کے چنگل میں بری طرح پھنسے نظر آتے ہیں کہ اس موسم کے پروردہ کسی طور بھی ،عوام الناس کی بہتری کے لیے روبہ کار آنے سے گریزاں ہیں۔اس غیر حقیقی ،غیر سیاسی و غیر جمہوری موسم کے پروردہ سیاستدانوں کی اکثریت عوامی حمایت کے برعکس ڈرائنگ رومز کی سیاست کرتے ہوئے ،عالمی و مقامی طاقتوروں کی منظور نظر بن کر اقتدار پر قابض ہوتی ہے اور ایسی من مانیاں کرتی ہے کہ مہذب دنیا میں اس کا تصور بھی محال ہے۔
ایسی ہی صورتحال کا سامنا اس وقت بھی پاکستانی سیاسی اُفق پر نمایاں ہے کہ کل تک جو سیاستدان قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب رہے ہیں،آج وہ ان اداروں کو احکامات دیتے نظر آتے ہیں اور کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے کے برعکس ریاستی ادارے ، انہی ملزمان کے احکامات کی تعمیل کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیںکہ ان اداروں کے افسران خواہش کے باوجود آزادانہ تحقیقات کیلئے آزاد نہیں کیونکہ ان افسران کی تقرری و تعیناتی انہی حکمرانوں کی صوابدید پر ہے۔ رجیم چینج آپریشن کے وقت ،موجودہ حکمرانوں کے وزراء یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ اگر رجیم چینج آپریشن نہ کیا جاتا تو سال کے آخر تک موجودہ حکمرانوں کی اکثریت جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آتی کیونکہ ان کی اکثریت ایسے مقدمات میں ملوث تھی کہ جس کا منطقی انجام جیل کی سلاخوں کے پیچھے اور سیاسی کیرئیر ختم ہو جاتا لیکن اس رجیم چینج کے بعدسب تبدیل ہو چکا۔ اقتدار ملتے ہی ،جو اہم ترین مقاصد حاصل کرنے کی جستجو کی گئی،اس میں سرفہرست قوانین میں ترامیم کے نام پر،مجوزہ ملزمان کے مقدمات کو سامنے رکھتے ہوئے،قوانین انہی ملزمان کے حق میں تبدیل کر دئیے گئے اور ملک کے ’’مقدس ترین‘‘ادارے پارلیمان اور اس میں بیٹھے ہوئے اراکین نے چند خاندانوں کے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسی ترامیم کی ہیں کہ جن کی نظیر دنیا کے کسی بھی قانون سازی کرنے والے ادارے؍پارلیمان سے نہیں ملتی۔ بالفرض ایسی قانون سازی کسی قانون ساز ادارے سے مل بھی جائے تو اس کی حیثیت و توقیر ہمیشہ سوالیہ رہتی ہے اور کسی بھی طور قابل ستائش و تقلید نہیں رہتی۔تاہم ایسی ترامیم کے نتیجہ میں فوری طور پر متاثرہ فریقین اپنے لئے ریلیف ضرور حاصل کر لیتے ہیں اور ایسی ہی صورتحال اس وقت نظر آ رہی ہے کہ ایک طرف قریباً پانچ سال تک خود ساختہ جلاوطنی اختیار کئے ہوئے موجودہ وزیر خزانہ دوبارہ پاکستان کے خزانے پر براجمان ہو چکے ہیں تودوسری طرف مریم نواز نے ان ترامیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عدالت عالیہ سے اپنا پاسپورٹ حاصل کرلیا ہے۔ان کی اگلی منزل یقینی طور پر برطانیہ ہو گی کہ جس کیلئے وہ مسلسل کوششیں کرتی رہی ہیں کہ کسی طرح انہیں پاسپورٹ ملے اور وہ پاکستان سے کوچ کریں لیکن اس وقت ان کا سفر برطانیہ مختلف اس طرح سے ہو گا کہ پہلے وہ ممکنہ طور پر فرار حاصل کرنا چاہتی تھی اور اب وہ اپنے والد کے ہمراہ برطانیہ سے فاتحانہ انداز میں واپسی کیلئے سفر کر رہی ہیں۔حکمرانوں کے یہ اندازبہت سے پاکستانیوں کیلئے روح فرسا ہیں کہ پاکستانی خواہ اندرون ملک ہوں یا تارکین وطن ،وہ دن رات محنت پاکستان کی خوشحالی کیلئے کرتے ہیں،اپنے خاندانوں کی کفالت کیلئے کرتے ہیں لیکن اس محنت شاقہ کا ثمر چند حکمران و بااثر خاندان، قوانین میں ایسی بھونڈی ترامیم کے ذریعہ اٹھا کرپاکستانیوں کے خوابوں کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں۔ پاکستانیوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود ،اس نظام حکومت میں، کاروبار مملکت میں سب فوائد صرف ان حکمرانوں کیلئے مختص ہیں اور عوام کا فرض صرف اتنا ہے کہ وہ ان حکمرانوں کیلئے ہر طرح کی قربانی دیتے چلے جائیں۔
ایک طرف موجودہ حکومت نے اپنے مقدمات ختم کرنے کیلئے بدنام زمانہ قانون سازی کی ہے تو دوسری طر ف اپنے حریف عمران خان پر تمام تر حربے اور ترکش کے تمام تیر برسائے جا رہے ہیں لیکن اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود عمران خان کو تیکنیکی بنیادوں پر کھیل سے باہر کرنے میں ہنوز ناکام ہیں۔حکمرانوں کے نزدیک توہین عدالت میں عمران خان کا ’’نااہل‘‘ ہونا یقینی امر تھا لیکن عمران خان جوڈیشل مجسٹریٹ محترمہ زیبا چودھری کی عدالت میں پیش ہو کر معافی مانگ لی گو کہ محترمہ زیبا چودھری عدالت میں موجود نہیں تھی ،تاہم عدالت عالیہ نے اس عمل کو خاطر خواہ تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف اس کو سراہا اور کافی قرار دیتے ہوئے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ خارج کردیا۔حالانکہ اسی مقدمہ میں وزیرداخلہ نے شاہی خاندان کی شہزادی کی خواہش پر عمران خان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردئیے،بنی گالہ پر پولیس بھیجنے کی تیاری بھی کی ،یعنی حکومت قوانین کی بجائے ذاتی خواہشات پر چلانے کا عملی نمونہ پیش کیا گیایا دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو مقدمات میں اس قدر الجھا دیا جائے کہ وہ اپنی ’’حقیقی آزادی‘‘تحریک کو وقت نہ دے سکیں۔ان تمام واقعات کو موسمیاتی تبدیلیوں کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح پاکستا ن میں موسمی تغیرات کو غیر فطری کہا جا رہا ہے اسی طرح سیاسی موسم میں تبدیلیاں بھی غیر فطری نظر آ رہی ہیں۔ اس وقت موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے یہ باتیں زیر گردش ہیں کہ امریکہ کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے کہ جس کی مدد سے وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں موسمی تغیرات برپا کر سکتا ہے اور پاکستان میں حالیہ موسمی تغیر اسی ٹیکنالوجی کا نتیجہ ہے،بعینہ پاکستانی سیاسی موسم کی تبدیلی فطری نہیں بلکہ اسی ’’ہارپ ٹیکنالوجی‘‘ کا نتیجہ ہے لیکن دوسری طرف عوامی رد عمل اس قدر شدید ہے کہ ہارپ ٹیکنالوجی کی ’’ہوائیں ‘‘تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button