Ahmad NaveedColumn

دل کی تعلیم .. احمد نوید

احمد نوید

 

یونیسکو نے 2004میں اخلاقیات تعلیم پروگرام شروع کیا تھا۔ اس ایتھکس ایجوکیشن پروگرام کا مقصد مختلف ملکوں اور معاشروں میں اخلاقیات کی تعلیم اور تربیت کو ترقی اور فروغ دینا ہے۔ اخلاقیات کیا ہیں اور اِس کی تعلیم کا فروغ کیوں ضروری ہے ۔ یہ بہت اہم سٹڈی ہے۔ اخلاقیات کا پہلا اصول صحیح اورغلط کا فرق ہے ۔ اخلاقیات ہمیں ایمانداری اور دیانت داری سیکھاتے ہیں ۔ زندگی کو سنبھالنے میں بعض اوقات تعلیم سے کہیں زیادہ اخلاقیات کام آتے ہیں۔ ارسطو نے ایک بار کہا تھا ، دل کی تعلیم کو چھوڑ کر صرف دماغ کو تعلیم دینا کوئی تعلیم نہیں ہے۔
آج ہمارے ملک کا المیہ ارسطو کے اس قول سے عیاں ہے ۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں دماغ کی تعلیم تو فراہم کی جارہی ہے مگر دل کی تعلیم کا کہیں نام و نشان نہیں ۔ والدین ، سکول کا لجز ، یونیورسٹیاں چاہتی ہیں کہ اُن کے بچے اور طلبہ وکیل ،ڈاکٹر ، بنکرز ، انجینئر ز ، اکائوٹنٹ اور آئی ٹی ایکسپرٹس بنیں ، مگر اُن میں سے کتنے ہیں جو چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے او ر طلبہ اچھے انسان بنیں ۔ بعض اوقات ہمارے نوجوان طلبہ بڑے عہدوں پر پہنچ بھی جاتے ہیں مگر اُن عہدوں اور منصبوں پر فائز ہوتے ہی اُن کے لبوں لہجوں میں خدا بولنے لگتا ہے ۔
میرے ناقص علم کے مطابق بہترین اخلاقیات لازوال اصولوں سے بنتے ہیں۔ہمیں خود کو چلانے اور اپنے کردار کی تعمیر کیلئے لازوال اصولوں کی ضرورت ہے ۔ سچ دنیا کے ہر کونے میں سچ ہے ،لہٰذا اخلاقیات دنیا بھر میں ایک جیسے ہی ہیں ۔ کسی نے کیاخوب کہا ہے ۔
’’علم کے بغیر دیانت کمزور اور بیکار ہے اور دیانت کے بغیر علم خطرناک اورخوفناک ہے ۔‘‘
آج پاکستانی قوم اگر بہت سے مسائل کا شکار ہے تو اُن میں سے ایک ہمارے اخلاق کی بربادی بھی ہے ۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ کسی بھی انسان کے اچھے ہونے کا تمام تر دارومدار اُس کے اخلا ق پر ہے ۔ اخلاق مقدس ترین ہے اور ہمارے لئے ناگزیر۔ اچھا اخلاق رکھنے والا ہر شخص انسان دوست ہے۔ آج ہمارے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ نے ہمارے معاشرے سے اچھے بُرے کی تمیز کو ہی ختم کر ڈالا ہے۔
اخلاقیات کا شعور معاشرہ پیدا کرتا ہے ۔ مگر معاشرے سے قبل یہ ذمہ داری والدین کی ہے اور گھر سے شروع ہوتی ہے ۔ گھر وہ پہلی جگہ ہے ، جہاں ہم اپنی بنیادی اخلاقیات اور اقدار سیکھتے ہیں ۔ والدین بہترین اساتذہ ہیں جو بچے کے اخلاقی کردار کی تشکیل اور تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ یہ سلسلہ ماں کی گود اور گھر سے شروع ہو کر باپ کی شفقت سے ہوتا ہوا خاندان ، مکتب ، گلی محلہ او ر پھر تعلیمی ادارے پر آکر رکتا ہے ۔ یہ ایک بچے یا فرد کی تربیت کے مراحل اور مکتب گاہیں ہیں۔
آج ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا کہ کیا اسلام اور اخلاق دوالگ چیزیں ہیں ۔ ہر گز نہیں ! مسلمان کی پہچان ہی ایمان ہے ۔ جس کے پاس اخلاق نہیں ، وہ مسلمان نہیں۔
آپ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔
’’مسلمانوں میں کامل ترین ایمان اُس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے بہترین ہے ‘‘
بد قسمتی سے آج ہمارے معاشرے سے اخلاقیات ، تہذیب و تمدن ، آداب ، تربیت کے نام و نشان ہی ختم ہوتے جا رہے ہیں ۔ ہماری غیر اخلاقی حرکتوں ، غیر سنجیدہ روئیوں اور غیر ذمہ دارانہ عادات کی وجہ سے آج دنیا ہمیں سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار نہیں۔
ندا فاضلی نے کیا خوب کہا تھا۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیںدس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
ہم ایسے ہی ہیں بلکہ پورا معاشرہ ایسا ہی ہے ۔ آج ہم نے خود پر کئی چہرے چڑھائے ہوئے ہیں ۔ افکار کچھ اور ہیں ، اعمال کچھ اور ہیں ۔ اس بگاڑ کو جو آخری حد تک پھیل چکا ہے ، گھروں اور تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کی تعلیم سے درست
کیا جا سکتا ہے، پاکستان ٹیلی ویژن سے اشفاق احمد صاحب کا پروگرام زاویہ لگتا تھا ۔ اُس پروگرام کی طرز پر بہت سے پروگراموں کی ضرورت ہے ۔ سیاسی تبصروں ،تجزیوں ، حالات حاضرہ جیسے پروگرام سیاسی شعور ضرور فراہم کر رہے ہیںمگر قوم کے اخلاق کی درستگی میں ایسے پروگراموں کا کردار نہیںہے ۔
کچھ روز قبل غیر ملکی مگر غالباً ایشیاء کے ہی ایک ملک کی وائرل ویڈیو میں ایک چو رجب فاسٹ فوڈ ڈلیوری بوائے کو گن پوائنٹ پر لوٹنے لگتا ہے تو اُسی لمحے پیچھے سے آتا ایک کار ڈرائیور اپنی گاڑی کی رفتار تیز کر کے اُس چور کو اُڑا کر دور پھینک دیتا ہے اور تیز رفتاری سے کار چلاتا ہوا نکل جاتا ہے ۔ اُس لمحے وہی ڈلیوری بوائے اپنی موٹر سائیکل کھڑی کر کے اُس زخمی چور کی مدد کے لیے پہنچتا ہے ۔ اِس سارے منظر میں ایک خوبصورت پیغام ہے دیکھنے والوں کے لیے ۔ چور کا جو کردار تھا اُس نے اس پر عمل کیا، مگر ڈلیوری بوائے نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے باوجود اپنے اندرکی اچھائی کو ختم ہونے نہیں دیا۔ اگرہم میں سے ہر شخص اپنے آس پاس برائی کو دیکھ کربھی اپنے حصے کی اچھائی کو مرنے نہیں دے گا تو یقینی طور پر ہر اِس اچھائی کا اثر دوسروں پر بھی ہوگا ۔ بہادر شاہ ظفر کا شعرہے ۔
ظفر آدمی اُس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم وذکا
جسے عیش میں یا د خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوف خدانہ رہا
اہل پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ اخلاقیات کو زندگی میں سب سے اونچا مقام دیں۔ تعلیم میں اخلاقیات کا بہت موثر اور اہم کردار ہے ۔ ہمیںآج اپنے تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کو ایک کورس کے طور پر پڑھائے جانے کی اشد ضرورت ہے ۔حکومت اور تعلیمی ادارے اسے اگر سمجھ سکیں۔ ورنہ جون ایلیا توبہت پہلے ہی کہہ چکے ہیں ۔
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button