Editorial

توہین عدالت، لارجر بنچ کامتفقہ فیصلہ

 

اسلام آباد ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے عمران خان کے بیان حلفی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے توہین عدالت کا کیس نمٹا دیاہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ میں سماعت کے دوران عمران خان اپنے وکیل حامد خان کے ساتھ عدالت پیش ہوئےچیف جسٹس نے کہاکہ بادی النظر میں یہ توہین عدالت تھی، تاہم عمران خان کے رویے پر عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کر رہے ہیں اور یہ لارجر بینچ کا متفقہ فیصلہ ہے۔ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن اور دیگر پیش ہوئےاورایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہا کہ عمران خان نے غیر مشروط معافی نہیں مانگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کا معافی کا بیان حلفی اور رویہ قابل اطمینان ہے، عمران خان کا کچہری جا کر خاتون جج سے معافی مانگنا بھی اچھا اقدام ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے کہا کہ عمران خان کے ماضی کے رویے پر بھی کچھ ریکارڈ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نہال ہاشمی اور دانیال چودھری کیس کو سپورٹ کررہے ہیں؟ آپ کے اعتراضات کو تفصیلی فیصلے میں بیان کردیں گے، آپ کل تک جواب جمع کرا دیں، ہم عمران خان کے کنڈکٹ سے بھی مطمئن ہیں، ہم توہین عدالت کا نوٹس ڈسچارج کر کے کارروائی ختم کر رہے ہیں اور یہ لارجر بنچ کا متفقہ فیصلہ ہے۔ عدالت نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کا کیس نمٹا دیا۔ خاتون مجسٹریٹ دھمکی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے دس ہزار روپے کے مچلکے کے عوض عمران خان کی عبوری ضمانت بھی منظور کی۔ وارنٹ گرفتاری جانے ہونے پر حزب اقتدار اور اختلاف کے مابین خوب بیان بازی بھی ہوئی اور یہاں تک کہاگیا کہ عمران خان نے نااہلی کے خطرے کی وجہ سے ایساکیا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان جو دنیا بھر میں کسی تعارف کے محتاج نہیں انہوں نے کرکٹ اور سیاست میں بھی خوب نام کمایا ہے، ان کی فلاحی خدمات بھی سبھی کے سامنے ہیں، اُن کا خاتون جج سے معافی مانگنے کے لیے کچہری جانا واقعی قابل تحسین ہے اور ہمارے سیاست دانوں کو ایسی روایات قائم کرنی چاہئیں جن سے یقیناً اُن کے سیاسی قد میں بھی اضافہ ہوگا کیونکہ ہماری سیاسی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں کسی سیاسی قدآور شخصیت نے اپنی غلطی یا رویے پر معذرت کی ہو بلکہ اِس کے برعکس کئی بار جارحانہ رویے اختیار کئے گئے جیسا کہ جناب چیف جسٹس نے نہال ہاشمی اور دانیال چودھری کیس کی مثال دی ہے۔ بعض لوگ اپنے پسندیدہ شعبے میں دن
رات ایک کرکے ایسا مقام حاصل کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے ملک میں رول ماڈل بن کر پسند کئے جاتے ہیں بلکہ انہیں دوسرے ممالک و اقوام میںبھی پسند کیا جاتا ہے اور انہیں سراہا جاتا ہے ، ایسے لوگوںکا تعلق کسی بھی شعبے سے ہوسکتا ہے، قائد اعظم محمد علی جناحؒ، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒاور ، عبدالستار ایدھی جیسی شخصیات ہمارے آئیڈیل ہیں اسی طرح اسی طرح سیاست، کھیل ، صنعت و تجارت سمیت کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں جس میں ہماری کسی شخصیت نے نام پیدا نہ کیا ہو اور وہ لوگوں کے لیے رول ماڈل نہ ہو۔ ہماری سیاست میں بھی ایسی شخصیات ہیں جنہیں لوگ نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ سے اپنی پسندیدہ یعنی آئیڈیل شخصیت کہتے ہیں اور اِن کے کہی ہوئی ہر بات کو خود پر لازم قرار دیتے ہیں اور اِنہی کےبیانات کو من و عن سچ اور حقیقت تسلیم کرکے بحث و مباحثے بھی کرتے ہیں اور بسا اوقات نظریاتی اختلافات کی وجہ سے معاملہ خراب ہوکر لڑائی جھگڑے کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ پس اتنی تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ عرض کرنا ہے کہ معافی یا معذرت کرنے سے اپنا قد اور قدر بڑھتی ہی ہے قطعی کم نہیں ہوتی اور غیر مسلم معاشرے خصوصاً مغرب میں بڑی فراخدلی کے ساتھ اپنی غلطی کو تسلیم بھی کیاجاتا ہے اور اِس پر معافی بھی مانگی جاتی ہے، اول تو ہر ممکن حد تک ناپ تول کر بولنا چاہیے اور خصوصاً سیاست دانوں کو اپنے خطابات کے دوران خصوصی احتیاط کرنی چاہیے کہ لوگ ان کی باتوں کا اثر بھی لیتے ہیں اور اس پر عمل کرنا اپنا فرض بھی سمجھتے ہیں اِس لیے جوش خطابت میں ایسی کوئی بات کہنے سے گریز کرنا چاہیے جس سے معاشرے میں بے چینی یا عدم استحکام پھیلنے کا خطرہ ہو ۔ عمران خان نے خاتون جج سے معافی مانگ کر اپنے سیاسی قد میںیقیناً اضافہ کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست ہو یا کوئی بھی شعبہ ہائے زندگی، دوسری شخصیات کو بھی اپنے مثبت رویے کے ساتھ اپنے چاہنے والوں کے لیے عمدہ مثال بننا چاہیے بصورت دیگر عدم برداشت جو پہلے ہی ہمارے معاشرے میں ہر سو پھیل چکی ہے اور کئی مواقعوں پر ہم اِس کے خوفناک اور ناقابل برداشت مظاہرے بھی دیکھ چکے ہیں، ہمیں معاشرے کو مثالی معاشرہ بنانے کے لیے اپنے رویے اور اپنے عمل کے ذریعے ایسی مثالیں قائم کرنا ہوں گی جن کی تقلید کرتے ہوئے لوگ اپنے اندر مثبت تبدیلیاں لے کرآئیں خصوصاً ہماری سیاسی قیادت ، ہمارا اشارہ کسی ایک جماعت کی جانب نہیں، افسوس کم و بیش سبھی قائدین روانی میں ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جو بلاشبہ مہذب معاشرے میں نہیں کہی جانی چاہئیں، کہیں مخالفین کی کردار کشی کی جاتی ہے اور نجی زندگی کو زیر بحث لایا جاتا ہے تو کہیں سیاسی مخالفین کو سڑکوں پر گھسیٹنے جیسے عزائم ظاہر کئے جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں دین اسلام، آئین پاکستان اور اخلاقیات کے اندر رہ کر ہی تولنا اور بولنا چاہیے تاکہ کسی کی دل آہ زاری ہو اور نہ ہی معاشرے سمیت کسی فرد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button