ColumnJabaar Ch

مریم نامہ! ۔۔ جبار چوہدری

جبار چودھری

 

یہ کیس جیسے شروع ہواتھا ویسے ہی ختم ہوگیا۔ مریم نوازکے بری ہونے پر اتنا ہی تبصرہ بنتا ہے کہ جو کیس بنایا ہی سیاسی انتقام کیلئے گیا ہو۔ تکلیف دینے کیلئے بنایا گیا ہو۔سیاسی میدان سے باہررکھنے کیلئے ہو۔جس کی ابتدابدنیتی پر مبنی ہو وہ کیس عدالت میں کیسے ٹھہر سکتاہے؟اس بریت کو این آراو ٹوکہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ وہی عدالت ہے جس نے ان کے قائد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ ختم کیا۔توہین عدالت کے کیس میں اتنا ریلیف دیا کہ خود معافی کاراستہ تک دکھایا۔ تنقید کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ مریم نوازپر کیس تھا کیا؟یہ کیس کس نے کن حالات میں کیوں بنایا۔اس کا مقصد کیا تھا۔ کیا واقعی کسی کے پاس مریم نوازکی کرپشن کا کوئی ثبوت تھا یا صرف ایک باپ ٹارگٹ تھا اور اس باپ کوتکلیف دینے کیلئے بیٹی کوچنا گیا؟۔الزام تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔ پہلا کیس تھا جس میں ٹرسٹ ڈیڈ بنانے والے مان رہے ہیں کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ گواہوں کوکوئی اعتراض نہیں۔جن کے درمیان ہے ان کو اعتراض نہیں۔صرف کیس بنانے والوں کواعتراض تھا۔
مریم نوازکا کیس کسی کی ضد کے سوا کسی بھی میرٹ پرپوراہی نہیںاترتا تھا۔میں جوبھی لکھ رہا ہوں صرف تاریخی واقعات ہیں۔جنات کی کہانیاں نہیں ،صرف واقعات ،وہ بھی صرف چھ سال پہلے کے۔مریم نواز اسی دن ٹارگٹ پررکھ لی گئی تھی جس دن وہ وزیراعظم ہاؤس میں اپنے میڈیا سیل کی نگرانی پرمامورہوئی تھی۔اس وقت اس کا مقابلہ صرف اس کو سیاست سے مائنس کرکے ہی ہوسکتا تھا اس لیے وہی راستہ لیا گیا۔ پانامہ لیکس آئیں توان میں نہ مریم نوازکا نام تھا نہ ہی نوازشریف کا لیکن چار سو پاکستانیوں میں صرف ایک کیس ہی چلا اور وہ بھی ان کے خلاف جن کا نام ہی نہیں تھا ان پیپرزمیں۔ پانامہ لیکس کا کیس بھی جیسے شروع ہواوہ بھی ایک داستان ہے۔ جب پانامہ پیپر کی سٹوری عمر چیمہ نے شائع کی توعمران خان سپریم کورٹ میں پٹیشن لے کر گئے۔ اس وقت جسٹس انورظہیر جمالی صاحب چیف جسٹس تھے ۔انہوںنے اس پٹیشن کو ایک فضول درخواست کہہ کر واپس کردیا۔انور ظہیرجمالی سپریم کورٹ سے ریٹائرہوئے تو سپریم کورٹ میں ثاقب نثار والی نئی انتظامیہ آگئی۔
اس وقت عمران خان دھرنے کے بعد دوبارہ سڑکوں پر احتجاج کررہے تھے ۔ وہ شہروں کی بندش کے مشن پر تھے تو آپ کو جسٹس کھوسہ کے مشہورزمانہ ریمارکس یاد ہوں گے، جب انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ سڑکوں پر کیوں ہیں ہمارے پاس کیوں نہیں آتے۔اس کے بعد جو پٹیشن فضول کہہ کرخارج کی گئی تھی اس پر کیس کی سماعت شروع کردی گئی۔پانچ رکنی بینچ بنا۔فیصلہ آیا دوججز نے نااہلی کی رائے دی لیکن تین نے مزید کیس چلانے اورجے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ دیا۔ پھر واٹس ایپ پر مشہور زمانہ جے آئی ٹی بنی۔جے آئی ٹی نے دس والیم لکھ مارے ۔
مریم نوازکا کیس امتیازی انصاف کی مکمل داستان ہے۔ان کو ٹیکنیکل بنیادوں پر اس کیس میں باقاعدہ داخل کیا گیا۔جے آئی ٹی کے فیصلے تک اس کیس میں صرف نوازشریف فریق تھے ۔مریم کا دور دور تک کوئی نام نہیں تھا لیکن ٹرسٹ ڈیڈ کے نام پر مریم کی انٹری کروائی گئی۔ایسا امتیازی انصاف کہ سپریم کورٹ کے سامنے جے آئی ٹی کے دس والیم اپنے تیارکروائے موجود تھے، لیکن وہ سارے ثبوت مریم کو قصوروارثابت کرنے کیلئے کم پڑگئےاور ان کا کیس احتساب عدالت کو بھیجنا پڑا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی نوازشریف کونااہل کرنے کی حد تک آیا۔نوازشریف کو بھی کسی کرپشن کے ثبوت پر سزانہیں دی گئی بلکہ اقامے کا سہارالینا پڑاکیونکہ انصاف فراہم کرنے والوں کوجلدی انتہا کی تھی۔عمران خان کواگلے سیٹ اپ کیلئے تیارکیا جا چکاتھا۔مریم پرکیس چلانے کیلئے احتساب عدالت کوبھیج دیا۔ یہاں بھی سوائے امتیازی سلوک کے اور کچھ نہیں ملے گا۔یہ تاریخ کا پہلا کیس تھا جس کو سپریم کورٹ نے خود چلایا ۔ ایک فرد کو تاحیات نااہل کیا اورمزید قید کی سزاکیلئے احتساب عدالت کو بھیج دیا۔ یہ بھی امتیازی سلوک کہ احتساب عدالتوں میں پہلے ہزاروں مقدمات کی بھرمار لیکن سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھ دیا کہ احتساب عدالت باقی کام چھوڑ کر یہ مقدمات ہر صورت چھ ماہ میں مکمل کروائے۔ اس مقدمے سے پہلے نہ بعد میں آج تک کوئی مقدمہ چھ ماہ میں فیصلے تک پہنچ سکا۔یہ بھی امتیازی سلوک کہ سپریم کورٹ نے ایک ماتحت عدالت پراسی بینچ کے جج کو مانیٹرنگ پر بٹھادیا جس نے پہلے نوازشریف کوسزاسنائی تھی۔
احتساب عدالت نے کیس چلایا تو اس کیس کی نگرانی کیلئے معززجج صاحب توتھے ہی کچھ مزید لوگ بھی باقاعدہ جج بشیر کی عدالت کے پچھلے دروازے سے آتے جاتے رہے۔احتساب عدالت نے ایسا ٹرائل کیا کہ واٹس ایپ والی جے آئی ٹی نے جو لکھ دیا اسی کو سب کچھ مان لیا۔کیلبری فونٹ استعمال کرنے والے آئی ٹی ماہر کی گواہی کو ماننے سے ہی انکارکردیا گیا۔مریم نوازنے اپنے والد کی جائیدادخریدنے میں معاونت کیسے کی، اس کی کسے پرواہ تھی بس فیصلہ کرنا تھا سو کردیا۔یہاں تک کہاگیا کہ سرینہ ہوٹل کے خاکی لفافے میں آنے والا فیصلہ جج صاحب نے پڑھ کر سنادیا۔
ٹرائل میں جب یہ کچھ ہوگا تو ہائی کورٹ میں کیسے ٹک پاتا یہ فیصلہ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سب کے سامنے سوال کیے لیکن کسی ایک سوال کا جواب بھی نیب کے پاس نہیں تھا۔ عمران خان صاحب اقتدار کی مسندپر تھے تو نیب نے اظہر صدیق صاحب کو صرف اس کیس کیلئےسپیشل پراسکیوٹر بنالیا لیکن وہ تیسری پیشی پر ہی پیچھے ہٹ گئے ۔معزز عدالت کے ہر سوال کا نیب کے پاس ایک ہی جواب تھاکہ جو کیا وہ ’’ہیروں ‘‘ والی جے آئی ٹی نے کیا۔یہ پاکستان کی واحد جے آئی ٹی تھی جس پر سزادینے والوں نے آنکھیں بندکرکے اعتبار کیا۔ ورنہ جے آئی ٹی تو عزیربلوچ کی بھی ہے۔ وہ اس جے آئی ٹی کی رپورٹ کے باوجود ہر مقدمے میں بری ہوئے جا رہا ہے ۔جے آئی ٹی تو ماڈل ٹاون سانحہ کی بھی ہے اس پر آج تک کوئی فیصلہ کیوں نہیں ہوا؟کیونکہ جس طرح اقامہ بہانہ تھا اسی طرح وہ جے آئی ٹی بھی بہانہ تھی تاکہ سزاسنانے والوں کے سامنے کالے کیے گئے کاغذات تو موجود ہوں۔
وقت گزر گیا۔ مریم نوازنے سزاکاٹ لی۔ میڈیاٹرائل کروالیا ۔وہ سب کچھ واپس نہیں آئے گا لیکن آخرکار ان کوفتح ملی یہ اچھا ہوا۔مریم نوازکاکیس پاکستان میں نہ ختم ہونے والی سیاسی انجینئرنگ کا شاہکار تھا۔یہ سیاسی توڑپھوڑ آج بھی اس سسٹم میں کہیں نہ کہیں جاری ہے۔اس کو بندکیے بغیر پاکستان کا آگے بڑھنامشکل ہے ۔کل مریم نوازاس کا نشانہ تھیں کل کوکوئی اوربنے گا اس لیے یہ امتیازی انصاف بندہوناچاہیے۔مصنوعی لیڈر شپ تیارکرنے کا پاکستان کو فائدہ نہیں ہمیشہ نقصان ہی ہواہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button