ColumnM Anwar Griwal

نئی مصیبت!.. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

وعدہ یہ تھا کہ مکھی پر مکھی مارے جانے کی بات کو آگے بڑھایا جائے گا۔مگر بات کچھ بگڑ گئی۔ہم راستے میں تھے کہ سڑک کے کنارے ایک بزرگ شہری ہاتھ کے اشارے سے ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان کو رُکنے کا اشارہ کر رہا تھا، اس دوران ہم وہاں سے آگے گزر گئے۔ چند لمحے بعد میری بیٹی نے جو کہ میری ہم رکاب تھی ، چَلّا کر کہا،’’ بابا! وہ بھائی نے موٹر سائیکل روک لی ہے‘‘ ! میری بیٹی کیلئے موٹر سائیکل والے کا رُکنا، پریشان کن تھا۔ مجھے بھی سخت پریشانی نے گھیر لیا۔ میں گھر تک اسی سوچ بچار میں رہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم باپ بیٹی ایک ہی واقعہ پر پریشان تھے، مگر ہماری پریشانی اور سوچ مختلف تھی۔ ہمیں اس عام سے واقعہ کی پریشانی کو جاننے کیلئے تھوڑا سا پس منظر میں جانا ہوگا۔ آجکل سوشل میڈیا اور سینہ بہ سینہ خبروں اور افواہوں کا بازار گرم ہے، جسے دیکھو وہ دوسرے سے مختلف قصہ سنا رہا ہے، ڈرا رہا ہے، اغوا اور وارداتوں کی کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں۔

ایک بزرگ خاتون نے کسی کے گھر دستک دی، دروازہ کھلنے پر اُس نے پانی پینے کی خواہش کا اظہار کیا، اسے بٹھا کر پانی پلایا گیا، کچھ دیر بعد اس نے کھانے کی طلب ظاہر کی، نیک دل گھر والوں نے ازراہِ ہمدردی کھانا بھی پیش کر دیا۔ گھر والوں کی نگاہ ایک تحریر پر پڑی، جو خاتون کے دوکندھوں کے درمیان پشت پر لکھی تھی۔ کہ اس خاتون کا ذہنی توازن درست نہیں، جس کو ملے وہ اس نمبر پر اطلاع کر کے ثوابِ دارین حاصل کرے۔ انہوں نے ہمدردی کا اگلا قدم اٹھاتے ہوئے فون ملادیا، چند منٹ میں باہر لوگ موجود تھے، اندر آکر انہوں نے بتایا کہ یہ اُن کی والدہ ماجدہ ہیں، انہوں نے گھر والوں کا شکریہ بھی ادا کیا ، کہ انہوں نے اُن کی والدہ کی خدمت کی اور اطلاع کر دی۔اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، کہ انہوں نے گن پوائنٹ پر تسلی سے گھر لوٹا، اور سکون سے رخصت ہوئے۔

قوم کو یہ بتایا جار ہا ہے کہ سیلاب متاثرین میں سے بہت سے لوگ ڈاکوئوں کے روپ میں جنوبی پنجاب اور بالائی پنجاب تک پہنچ چکے ہیں، جہاں وہ وقت بے وقت راہگیروں کو روکتے اور اسلحہ کے زور پر ان سے سامان، نقدی اور موبائل وغیرہ چھین رہے ہیں۔ مزاحمت وغیرہ کی صورت میں وہ گولی مار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے، کیونکہ وہ سنگدل اور بے حس واقع ہوئے ہیں۔ اس کیلئے لوگوںکو ہر کوئی ہدایت اور تلقین کر رہا ہے کہ گھر کا دروازہ کسی کیلئے بغیر تحقیق کے ہر گز نہ
کھولیں، کسی اجنبی خاتون کو بھی اندر نہ آنے دیں، کسی مجبوری کے علاوہ گھر سے باہر دیر تک بالکل نہ رہیں۔ اور یہ بھی کہ بچوں کو باہر اکیلا مت جانے دیں، مغرب کے بعد بچوں کو گھر سے نہ نکلنے دیں۔ اپنے ارد گر د کے ماحول پر کڑی نگاہ رکھیں۔

میری بیٹی کی پریشانی کی وجوہات اوپر کے واقعات سے صاف جھلک رہی ہیں، اُس کا یہی اندازہ ہے کہ کسی اجنبی کو موٹر سائیکل پر لفٹ نہیں دینی چاہیے، کوئی واردات ہو سکتی ہے۔ مگر میری پریشانی اور تھی ، وہ یہ کہ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ کیا ہمارے اوپر عذاب پہلے کم ہیں کہ یہ عدم تحفظ کی مصیبت نازل ہو گئی ہے، ہم جتنی بھی حفاظت کرلیں، گھر کا دروازہ نہ کھولیں، مگر اسلحہ کے زور پر لوٹنے والوں سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ اگر بچے کو چیز دلوانے کیلئے آپ خود دکان تک جاتے ہیں، راستے میں آپ کو بندوق کی نوک پر روک لیا جاتا ہے تو کیا ہوگا؟ کون پوچھے گا؟ کہاں تک گھروں میں چھپ کر بیٹھیں گے؟ اگر گھر میں بھی ڈاکو زبردستی داخل ہو جائیں تو نتیجہ کیا ہوگا؟

اسی کہانی کا دوسرا پہلو میرے احساس میں زہریلے تِیر کی مانند پیوست ہو گیا ہے۔ گزشتہ دنوں صبح دس گیارہ بجے ہمارے گھر پر دستک ہوئی، دروازہ کھلنے پر معلوم ہوا کہ پولیو کے قطرے پلانے والی خواتین ہیں، اسی دوران ایک نے
دوسری کے بارے میں بتایا کہ یہ صبح گھر سے جلدی میں بغیر ناشتے کے نکل آئی ہے اب اس کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ خاتونِ اول نے ازراہِ ہمدردی انہیں اکرام سے بٹھایا، گرما گرم ناشتہ کروایا ، چائے پیش کی اور وہ دعائیں دیتی ہوئی اپنے کام پر روانہ ہو گئیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہر طرف فراڈ اور نوسر باز آ جائیںگے، تو جن لوگوں کو واقعی کسی کی مدد کی ضرورت ہے، اُن کا کیا بنے گا؟کیا دروازہ کھول کر کسی راہگیر کو پانی بھی نہ پلایا جائے؟ کیا کسی ضرورت مند کی مدد بھی نہ کی جائے، کیا کسی بزرگ مسافر کو اپنے ساتھ بٹھا کر منزل کے قریب تک بھی نہ پہنچایا جائے؟ میں اپنی بیٹی کی بات پر سوچتا رہ گیا کہ کیا معلوم اِس بزرگ کا گھر کتنی دور ہے، کیا جانئے کہ اس کی جیب میں پیسے ہیں کہ نہیں، کیا خبر اس کی صحت اُسے زیادہ چلنے سے منع کرتی ہو۔ اور یہ بھی کیا علم کہ آگے جا کر وہ رکے اور اس کے ساتھی واردات کیلئے تیار کھڑے ہوں۔ یوں نیکی کرنے والا برائی کے ہتھے چڑھ جائے اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔

پولیس نے بھی ان حالات میں اپنا حصہ ملا کر اپنا فرض پورا کر دیا ہے، پولیس نے عوام الناس کو مشورہ کے انداز میں ہدایات جاری کر دی ہیں، کہ’’ دوستوں اور فیملی کے وٹس ایپ گروپ بنائیں، گھروں میں کیمرے لگوائیں، بچے مین دروازہ نہ کھولیں، زیورات اور نقدی گھر پر نہ رکھیں، کوئی ایک موبائل فون چھپا کر رکھیں، گھر کی اہم جگہ پر پولیس کے نمبر لکھ رکھیں، گھر سے نکلنے کی روٹین تبدیل کرتے رہیں، گھر سے باہر ہیں تو گھر فون کرتے رہیں۔ مشورے قابلِ عمل ہیں، تاہم پولیس اپنی گشت اور کارکردگی بہتر بھی کرے، کسی نوسر باز، فراڈ یئے یا ڈاکو وغیرہ کو پکڑ ا بھی جائے، کسی کو سزا بھی ملے، تاکہ عبرت ہو۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم لوگ ایک گلی محلہ میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور ہوتے ہیں، ہمسایوں کو بھی ایک دوسرے سے رابطہ مضبوط کرنا چاہیے ۔بلدیاتی الیکشن تو کسی حکومت کو اچھے نہیں لگتے، لیکن گلی محلے کی کمیٹیاں تو بن سکتی ہیں، مساجد کی بنا پر بھی کمیٹیاں قائم کی جاسکتی ہیں، سب لوگ سر جوڑ کر بیٹھیں، تاکہ مستحق کو اُس کا حق ملے اورنوسر باز اپنے کئے کی سزا پائیں۔ حکمران، انتظامیہ، اساتذہ، علمائے کرام،دانشوران سب لوگ اپنا اپنا کردار ادا کریں۔پہلے تربیت اور پھر سزاکی سخت ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button