Editorial

معاشی میدان سے خوشخبریاں

 

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کی میعاد میں 31اکتوبر تک توسیع دینے کا اعلان کیا ہے۔پٹرول 12.63، ڈیزل 12.13، مٹی کا تیل10.19،لائٹ ڈیزل 10.78روپے فی لٹر قیمت کم کی گئی ہے۔ اسی طرح آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے ماہ اکتوبر کے لیے ایل پی جی گیس کی قیمت میں 10 روپے فی کلو کمی کا اعلان کیاہے۔ نئے ریٹ کے بعد ایل پی جی کے گھریلو سلنڈر پر 122 جبکہ کمرشل سلنڈر پر 470 روپے کی کمی ہوجائے گی۔ پٹرولیم مصنوعات اور ایل پی جی گیس کی قیمتوں میں کمی کے بعد ڈالر کی بات کی جائے تو ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے اورجمعہ کے روز سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق انٹربینک میں کاروبار کے اختتام پر ڈالر کا بھاؤ 228.45 روپے رہااور انٹربینک میں رواں ہفتے ڈالر 11.20روپے سستا ہوچکا ہے البتہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا بھاؤ 230 روپے برقرار ہے۔اسی طرح پاکستان سٹاک مارکیٹ میں جمعہ کو کے ایس ای 100انڈیکس میں 114.81پوائنٹس کا اضافہ ہوا جس سے انڈیکس41013.86پوائنٹس سے بڑھ کر 41128.67 پوائنٹس ہو گیا۔ وفاقی ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ سے ہم اپنی گذارشات کا آغاز کرنا چاہیں گے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں مہنگائی صفر اشاریہ نو چار فیصد اضافے کے بعد تیس اشاریہ چھ دو فیصد تک پہنچ گئی ہے ، رپورٹ میں رواں ہفتے مزید مہنگی ہونے والی اجناس اور اشیائے خورونوش کا بھی ذکر کیاگیا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ابھی تو انہوں نے ڈالر کی قدر میں کمی لانے کے لیے ایکشن شروع ہی نہیں کیا، پھر بھی پانچ دن میں ایک بار بھی ڈالر اوپر نہیں گیا۔ٹرینڈ بدل چکا ہے، پچھلے5 دن میں روپےکی قدر میں کمی نہیں آئی، پوری ذمےداری سے کہہ سکتا ہوں کہ روپے کی قدر مصنوعی طور پر گری ہوئی ہے، روپے کی اصل ویلیو یہ نہیں، اس کے ساتھ کھیل کھیلا گیا ہے اور قطعی دو رائے نہیں کہ جب سے اسحق ڈار نے وزارت خزانہ کاقلم دان سنبھالا ہے، ڈالر کی قیمت میں گراوٹ آئی اور پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح سٹاک مارکیٹ میں بھی بہتری دیکھنے میں آرہی ہے ۔ معیشت سے متعلق ایک اور اچھی خبرہے کہ امریکہ نے پاکستان پر واجب الادا 13کروڑ 20 لاکھ ڈالر قرض کی واپسی مؤخر کر دی ہے اور امریکی سفارتخانے کے مطابق امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے پاک امریکہ معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کے مطابق اُن کی ترجیح پاکستان میں اہم وسائل کو نئی سمت دینا ہے۔بلاشبہ وفاقی ادارہ
شماریات کے سوا متذکرہ تمام خبریں بالخصوص پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی عامۃ الناس کے لیے اچھی خبرہے اور اگر مستقبل قریب میں قیمت مزید کم ہوتی ہے تو یقیناً عوام کے لیے ریلیف ہوگاکیونکہ موجودہ حالات میں مہنگائی کے بیک وقت کئی ریکارڈ قائم ہوچکے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات،گھریلو و کمرشل صارفین کے لیے بجلی کے نرخ،ایل پی جی، ادویات غرضیکہ کوئی ایک ایسی چیز نہیں جس کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر نہ پہنچی ہو۔ بدقسمتی سے مہنگائی میں تاریخ کا بلند ترین اضافہ اِس حکومت کے دور میں ہوا ہے جس نے مہنگائی کا خاتمے اورخوش حالی کا نعرہ لگاکر اقتدار سنبھالا تھا۔ بجلی، پٹرول، گیس، اجناس اور اشیائے خورونوش غرضیکہ جتنی چیزیں مہنگی ہوئی ہیں وہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں اور مہنگائی کی موجودہ لہر پٹرول، بجلی، گیس جیسی بنیادی ضروریات حکومت کی طرف سے مہنگی کرنے کے نتیجے میں آئی ہے مگر حکومتی ایوانوں میں مہنگائی کے اِس طوفان کو معاشی اصلاحات کا نام دیاجاتا ہے جس نے عام پاکستانی کا کچومر نکال دیا ہے جس کے ذرائع آمدن تو وہی ہیں لیکن مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچاکر اِس کو عام آدمی سے منسلک کرکے حکومت درمیان میں سے نکل گئی ہے، پس عالمی مارکیٹ میں تیل مہنگا ہوگا تو براہ راست بوجھ عوام پر منتقل ہوگا اور حکومت لیوی سمیت تمام ٹیکسز وصول بھی لازماً کرے گی پھر اسی تیل سے مہنگی بجلی پیدا ہوگی تو اس کا بوجھ بھی براہ راست عوام پر آئے گا کیونکہ تیل مہنگا تو بجلی بھی مہنگی اور جب یہ دونوں مہنگے تو پھر ضرورت کی ہر چیز مہنگی اور مہنگائی کا نیا جھکڑ۔ ارباب اختیار کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوام جس معاشی بدحالی کا سامنا کررہے ہیں اِس میں عوام کاکوئی قصور نہیں ۔عوام نے تو ڈیم بنانے اور اُن سے سستی بجلی پیدا کرنے سے کسی کو نہیں روکا۔ اسی طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کا معاملہ ہے، پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ملک بھر میں بدقسمتی سے ٹرانسپورٹ کا ایسا نظام ہی نہیں کہ لوگ اپنی سواری کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے روزمرہ کے امور سرانجام دے سکیں ۔ مہنگی بجلی اور گیس دینے کے بعد ملکی صنعتوں کی پیداوار کا کیا حشر ہوگا اور کیا برآمدات ہوں گی یہ بھی آپ اور ہم جانتے ہیں پس اِس معاملےپر جتنی گذارشات دلائل کے ساتھ پیش کی جائیں کم ہیں اور کسی معاملے میں عوام قصور وار نظر نہیں آتے۔ ہر طرف سرمایہ دار اور ذخیرہ اندوز ہیں اور عوام کی بدقسمتی کہ سبھی فیصلے اُن کے من چاہے ہوتے ہیں اور عوام کا کسی بھی موقعے پر نہیں سوچا جاتا۔ ملک کی کایا پلٹنے کے دعوے دار حکمران ایک سفید پوش کے گھر کا اُس کی آمدن کے مطابق بجٹ بنانے سے بھی قاصر ہیں تو اُن سے کایا پلٹنے کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے۔ عوام کا معیار زندگی پستی کا شکار ہے اور اس کے لیے حکمران یا سیاست دان جو بھی جواز پیش کریں جس کو بھی ذمہ دار ٹھہرائیں عوام قطعی مطمئن نہیں ہوں گے کیونکہ آمدن سے زیادہ معاشی بوجھ اٹھانے والے اب ریلیف کے منتظر ہیں جو انہیں ریلیف دے گا اِسی کو وہ مسیحا سمجھیں گے۔ ویسے بھی اب عام انتخابات قریب آنے والے ہیں، سیاسی جماعتوں بالخصوص اتحادی حکومت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تاریخ ساز مہنگائی کرکے عوام کو کیسے مطمئن کریں گے۔ اگرچہ حکومت کو وزیر خزانہ اسحق ڈار سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں اور معاشی میدان سے آنے والی کچھ خوشخبریاں بھی ہم نے بیان کی ہیں لیکن وزارت خزانہ کی کی آوٹ لک رپورٹ آنے والے وقت سے متعلق تشویش میں اضافہ کرتی ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ عالمی معیشت کم شرح ترقی، افراط زر سے متاثر ہو چکی ہے، پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے فوڈ سکیورٹی کے رسک میں اضافہ ہوا ہے، جیوپولیٹکل تنازعات، ملکی اور عالمی غیریقینی حالات عالمی اور ملکی معاشی منظرنامے پر اثرانداز ہورہے ہیں۔عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں کمی کے باوجود ایڈجسٹمنٹ کے اقدامات میں تاخیر کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ کے اثرات جاری رہ سکتے ہیں یعنی وہ مصنوعات جن کی قیمتیں عالمی منڈی میں کم بھی ہوئی ہیں ان سے پہلے والے گھاٹے پوری کئے جائیں گے اِس کے بعد ہی عوام کو ریلیف دیا جائے گا۔ اگرچہ یہ طرز عمل کوئی نیا نہیں لیکن کیا پسے ہوئے عوام کو مزید رگڑنا ہی حکومتوں کا طرز عمل رہے گا یا ہمارے حکمران جو مغرب کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں اور وہاں کے نظام سے بھی بخوبی واقف ہیں وہ اپنے عوام کو بھی پوری ایمانداری سے ریلیف دیں گے جس طرح مغرب میں دیا جاتا ہے؟ ہم مغرب کی تقلید کرنے کا تو نہیں کہتے لیکن اتنا ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں اور سیاسی مصلحتوں کا بوجھ عوام پر نہ ڈالا جائے جن کی کمر پہلے ہی نسل در نسل مہنگائی کے بوجھ سے جھکی ہوئی ہے اور کچھ نہیں تو منتخب نمائندوں سے ہی پوچھ لیا جائے کہ انہیں عوام میں جانے میں کیوں دشواری کا سامنا ہے اور لوگ کیا سوالات پوچھتے ہیں ۔ابھی ڈالر کی قیمت میں بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے لیکن کیا اِس کمی کا عام مارکیٹ، اجناس ، اشیائے خورونوش اور مہنگائی پر فرق پڑے گا؟ اسی طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی کمی کی گئی ہے، کیا وہ مہنگائی کم ہوجائے گی جو قیمت بڑھنے کے نتیجے میں ہوئی تھی؟ یقیناً ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے ملک میں کوئی ایک صوبہ ایسا نہیں جو دعویٰ کرسکے کہ اُن کے ہاں مصنوعی مہنگائی، زخیرہ اندوزی کا کلچر نہیں اور قیمتوں کے اُتار چڑھائو کے باعث مہنگائی میں کمی ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک بارپھر ہم یہی گذارش کرنا چاہیں گے کہ نہ صرف عوام کو ریلیف منتقل کیا جائے بلکہ مصنوعی مہنگائی پر بھی قابو پایا جائے اور ہمیشہ کی طرح عوام سے قربانی لینے کی روایت ختم کرکے اپنے شاہی اخراجات میں کمی لائی جائے اور غریب اور سفید پوش پاکستانیوں کے معیارزندگی اور خریداری کی قوت استطاعت بڑھائی جائے وگرنہ زبانی جمع خرچ سے کوئی مطمئن ہوگا نہ ہی مطمئن کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button