CM RizwanColumn

مریم نواز کی بریت سے سیاست میں تہلکہ .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

جب نون لیگ اور شریف خاندان پر مصائب کا وقت تھا تو احتساب عدالت نے مریم نواز کو 7 سال کی سزا سنائی تھی۔ کیس تھا ایون فیلڈ ریفرنس ،اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس ریفرنس میں مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز کو دی گئی اس سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر یہ فیصلہ محفوظ کیا جو بعد میں سنادیا گیا۔ عدالت کی جانب سے مختصر تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیصلے کی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی تاہم اپیل منظور کی جاتی ہے اور مریم نواز کی جانب سے دائر اپیل پر 6 جولائی 2018 کو سنایا گیا فیصلہ کالعدم قرار دیا گیا ہے۔جسٹس عامر فاروق نے مختصر فیصلہ تحریر کیا جس میں مریم نواز کے شوہر محمد صفدر کے خلاف 6 جولائی 2018 کو سنایا گیا فیصلہ بھی کالعدم قرار دیا اور الزامات سے بری کردیا۔
یادرہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کو 7 سال قید 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانے کے علاوہ ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے جولائی 2018 میں مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا معطل کی تھی۔ بریت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کی رہنما نے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ آج نواز شریف سرخرو ہوئے۔ انہوں نے اپنے والد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس نے آپ کو آج سرخرو کیا اور آپ کے مخالفین کو ناکام کیا ہے۔ انہوں نے اپنے والد (سابق وزیراعظم) سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے اپنی میڈیا ٹاک کا آغاز کیا جب کہ اس دوران ان کے چچا وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی انہیں فون کرکے عدالت کی جانب سے دیے گئے فیصلے پر مبارکباد دی، بعد میں مریم نواز نے شہباز شریف سے ملاقات بھی کی۔ لندن سے پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مریم نواز کی ایون فیلڈ ریفرنس میں بریت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے کئی سال پہلے کہا تھا کہ میں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے حق کو غالب فرمایا ہے۔ انسان سچا ہو تو اللہ بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ جھوٹ، بہتان اور کردار کشی کی عمارت زمین بوس ہوگئی۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کی بریت اس نام نہاد احتسابی نظام کے منہ پر طمانچہ ہے جسے شریف خاندان کو نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا گیا تھا۔ فیصلے پر اظہار مسرت کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ اللہ نے بڑا کرم کیا ہے، اللہ نے بڑی عزت دی ہے۔ مریم اورنگزیب نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو بھی شیئر کی جس میں وزیراعظم شہباز شریف، مریم نواز، وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، سینئر رہنما پرویز رشید کو مٹھائی کھاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے فیصلے کی بنیاد پر مریم نواز اب الیکشن میں حصہ لینے کی اہل ہیں۔
ملکی آئین کے مطابق جو شخص بدعنوانی یا اخلاقی بدکاری میں ملوث ہونے کے جرم میں سزا یافتہ ہو، وہ 5 سال تک الیکشن لڑنے کیلئے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی تاحیات رہتی ہے لیکن آرٹیکل 63 (1) (جی) کے تحت نااہلی ختم ہوسکتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سزا کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد مریم نواز کی الیکشن لڑ کر اسمبلی میں آنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ میں کب اور کہاں سے الیکشن لڑوں گی اس کا فیصلہ پارٹی سربراہ نواز شریف اور شہباز شریف کریں گے۔ واضح رہے کہ 19 ستمبر 2018 کو ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلے کے ایک ماہ بعد 22 اکتوبر 2018 کو نیب نے نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کی رہائی کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ملزمان کی سزا معطلی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل خارج کردی تھی۔ گزشتہ سال 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز کی ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی درخواست سے اعتراضات ختم کرکے سماعت کیلئے مقرر کردی تھی۔ مریم نواز کی اس بریت کے بعد ملک میں سیاسی بحث ومباحث میں اضافے کا رجحان ہے۔ ڈیل اور این آر او کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اب نواز شریف کو بھی این آر او مل گیا ہے اور وہ بھی جلد پاکستان آجائیں گے کیونکہ ایک ڈیل کے تحت ان کی سزا بھی ختم کر دی جائے گی حالانکہ یہ سراسر غلط
اور عدالتی نظام کی توہین کے مترادف ہے، کیونکہ ایک سابقہ پیشی پر نیب پراسیکیوٹر کا عدالت میں کہنا تھا کہ آگے جا کر میں عدالت میں اپنی گفتگو نواز شریف کے کیس سے شروع کروں گا پھر مریم نواز پر آؤں گا نواز شریف کی اپیل اس کیس میں خارج ہو چکی ہے جس پر جسٹس عامر نے کہا کہ نواز شریف کی اپیل میرٹ پر نہیں بلکہ عدم پیشی پر خارج ہوئی تھی۔ نیب نے کہا لیکن حقائق یہی ہیں کہ نواز شریف کی حد تک نیب کورٹ کا فیصلہ برقرار ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا 342 کے بیان میں نواز شریف ان پراپرٹیز کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں۔ جس پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا تھا کہ نواز شریف نے جے آئی ٹی کے سامنے، سپریم کورٹ اور نیب کورٹ میں ملکیت کا انکار کیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس بات پر کہ وہ وہاں رہ رہے ہیں۔پراسیکیوشن کو ملکیت پھر بھی ثابت کرنی ہے کیونکہ اس وقت آدھا پاکستان دوسرے کے گھروں میں رہ رہا ہے، قاتل کہہ بھی دے کہ قتل اس نے کیا ہے پھر بھی پراسیکیوشن کو جرم ثابت کرنا ہوتا ہے۔ عدالت نے نیب سے پوچھا کہ کیا آپ نے ان سے پوچھا کہ وہ ان پراپرٹیز میں رہ رہے ہیں تو کس حیثیت میں رہ رہے ہیں؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف اسی گھر میں وہاں جا کر رہتے تھے، چار فلیٹس کی اونر شپ پر کسی کا کوئی اعتراض نہیں۔ عدالت نے نیب کو ہدایت دی کہ نیلسن اور نیسکول کا ٹائٹل ڈاکومنٹ دکھائیں، ولایت میں بھی کوئی اتنا اچھا نہیں کہ فری میں کوئی پراپرٹی دے دے، وہ پیمنٹ کس نے کی؟ جب کہ آپ کے بقول کمپنیوں نے نواز شریف کی طرف سے پیمنٹ کی۔ آپ کو ثابت کرنا ہے کہ نواز شریف نے پیمنٹ کی اور ان کے بینیفشل اونر نواز شریف ہیں۔ ایک اور پیشی پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم نواز شریف کے ٹیکس ریٹرن اور بینک اکاؤنٹس نہیں دیکھیں گے کیونکہ ہم نواز شریف کا کیس نہیں سن رہے، ہم مریم نواز کا کیس سن رہے ہیں۔ عدالت نے کہا تھا کہ نواز شریف نے کیا کہیں بھی کہا تھا یہ جائیداد اُن کی ہے۔ جس پر مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف نے کسی بھی فورم پر نہیں کہا کہ جائیداد ان کی ہے۔ عدالت نے یہ بھی ہدایت دی تھی کہ نیب یہ بھی بتائے کہ اپارٹمنٹس خریدنے کے لئے ادائیگی نواز شریف نے کی، نواز شریف کا کمپنیوں کے ساتھ تعلق ثابت کریں، کمپنیوں کا فلیٹس کے ساتھ تعلق ثابت کریں، فلیٹس 1993ء میں خریدنا ثابت کریں۔ اس کے بعد پھر مریم نواز کا فلیٹس سے تعلق ثابت کریں، عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سے زیادہ آسان زبان میں نیب سے سوال نہیں کرسکتے۔یاد رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں متعدد سماعتوں کے بعد سال 2018ء میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 11 سال قید کی سزا سناتے ہوئے ان پر 80 لاکھ برطانوی پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ عدالت نے اس ریفرنس میں مریم نواز کو آٹھ سال قید کی سزا سناتے ہوئے 20 لاکھ برٹش پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ اسی طرح کیپٹن (ر) صفدر کو دو سال قید کی سزا سنائی تھی تاہم عدالت نے مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کا مقدمہ نواز شریف کے مقدمے سے علیحدہ کردیا تھا۔
ان تمام تفصیلات کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ عدالت میں کسی بھی حوالے سے قانون آئین اور اصول کی پاسداری سے ہٹ کر کوئی کارروائی نہ ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ محض سیاسی پروپیگنڈا کیلئے عدالت کے فیصلے کو ڈیل کا حصہ قرار دینا صریحاً ظلم ہے۔ تاہم مریم نواز کی اس بریت سے ملکی سیاست میں تہلکہ مچ گیا ہے لیکن آئندہ انتخابات سے پہلے ملک میں ایسی فضا کا ہونا بہت ضروری ہے کہ کوئی بھی سیاسی فریق اپنے مخالف کو’’لاڈلا‘‘ نہ کہہ سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button