ColumnHabib Ullah Qamar

مسئلہ فلسطین پرعالمی اداروں کا منافقانہ رویہ .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

 

فلسطین کے مختلف علاقوںمیںغاصب اسرائیل کی ظلم و دہشت گردی جاری ہے اور روزانہ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ صیہونی فوج کی بمباری سے ہر طرف تباہی کے مناظر اور عمارتیں کھنڈر بن چکی ہیں۔ابھی دو دن قبل ہی اسرائیلی فوج نے غرب اردن میں شہری آبادی پر دھاوابولتے ہوئے چار فلسطینیوں کو شہید متعدد کو زخمی کر دیا ہے جس پر فلسطینی مسلمانوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا جارہا ہے۔ شہید فلسطینیوں کے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کا تعلق اسلامی جہاد سے تھا۔ عرب لیگ نے اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کو براہ راست ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ قابض ریاست کو مجرمانہ جارحیت روکنے پر مجبور کرنے کیلئے ایک فعال بین الاقوامی دبائو قائم کرنا چاہیے۔اقوام متحدہ کی فلسطینیوں کے قتل عام پر خاموشی مجرمانہ اقدام ہے۔ عالمی سطح پر انصاف،انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کیلئے کام کرنیو الے اداروںکو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی انتقامی حربوں کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھانی چاہیے۔ادھر یہودیوں کی جانب سے قریباً روزانہ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔حال ہی میں یہودی انتہا پسند گروہوںنے اپنے پیروکاروں کو مذہبی تعطیلات کے موقع پر مسجد اقصیٰ پر اجتماعی دھاوا بولنے اور اس کے صحنوںمیں مختلف تلمودی رسومات ادا کرنے کی ترغیب دی ہے جس پر مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
غاصب اسرائیل کی دہشت گردی ساری دنیا کے سامنے ہے لیکن محض مذمتی بیانات کے علاوہ آج تک کسی نے کچھ نہیں کیا۔ امریکہ، یورپ اور اقوام متحدہ جیسے ادارے تو درپردہ اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مسئلہ فلسطین پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیاتو امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا جس سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہوئی کہ انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبردار ملکوں اور اداروں کو مسلمانوں کے مسائل سے کسی طور کوئی دلچسپی نہیں اور انہوںنے ہمیشہ اسرائیل اور بھارت جیسی غاصب قوتوں کو مسلمانوں پر ظلم و دہشت گردی کے مواقع فراہم کیے ہیں۔اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد دنیا کو تباہی و بربادی سے بچانا تھا اور اس کے منشور میں یہ بات شامل تھی کہ دنیا میں امن کے قیام کیلئے مخلصانہ کوششیں کی جائیں گی، تمام قومیں برابر ہوں گی، انہیںمساوی حقوق ملیں گے اور انہیں حق خود ارادیت دیا جائے گا لیکن حقیقت ہے کہ یہ ادارہ اپنے طے کردہ مقاصد میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ مشرقی تیمور اور سوڈان کی تقسیم کا معاملہ ہو تو یہ ادارہ فی الفور حرکت میں آجاتا ہے لیکن فلسطین، کشمیر، برما اور دیگر خطوں میں مسلمانوں کے قتل عام پر اقوام متحدہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یو این کی طرف سے ہر سال فلسطینی عوام سے یکجہتی کا دن بھی منایا جاتا ہے مگر جب اسرائیلی ظلم و بربریت روکنے کی بات آتی ہے تو مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ یعنی فلسطین میں قیام امن کی باتیں زوروشور سے کی جائیں گی مگر اس حوالے سے یو این کی جانب سے کوئی عملی کاوش کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس نے ہمیشہ امریکہ ، یورپ، اسرائیل اور دیگر بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔
فلسطین اور کشمیر کے مسئلہ پر یو این نے درجنوں قراردادیں منظور کر رکھی ہیں لیکن اسرائیل اور بھارت نے ان قراردادوں کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا اور کبھی ان پر عمل درآمد نہیں کیا مگر لاکھوں انسانوں کا خون بہانے والے ان دہشت گرد ملکوں کیخلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔اقوام متحدہ میں شامل بڑی طاقتوںنے اس ادارے کو اپنی لونڈی بنا رکھا ہے اور دنیا میں امن کی بجائے وہ اسے مسلمانوں کیخلاف کھل کر استعمال کر رہے ہیں۔ مسلمان ملکوں میں رفاہی و فلاحی تنظیموں پر یہ کہہ کر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں کہ یہ نام نہاد دہشت گردی میں ملوث ہیں لیکن اس کی اپنی یہ صورتحال ہے کہ عراق پر اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر حملہ کرکے لاکھوں انسان قتل کر دیے گئے لیکن یو این کا ادارہ مصلحتوں کا شکار رہا۔افغانستان میں بھی اسی طرح نہتے انسانوں کا خون بہایا گیا۔ فلسطین، کشمیر، اراکان برما اور دیگر خطوں کی بھی یہی صورت حال ہے مگر اقوام متحدہ کی طرف سے ان بڑے عالمی دہشت گردوں کے خلاف کبھی کوئی مضبوط بیان تک نہیں دیا گیا۔ اس وقت بھی دیکھ لیں فلسطین میں آتش و آہن کی بارش ہو رہی ہے مگرامریکی صدر جوبائیڈن ٹرمپ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور اسرائیلی دہشت گردی روکنے کی بجائے حماس کی کارروائیوں کی مذمت کی جارہی ہے۔
امریکہ نے فلسطین کی حمایت میں منظور کردہ قراردادوں کے موقع پر ہمیشہ صیہونی ریاست کا ساتھ دیا ہے۔ کبھی قراردادوں کی منظوری کی مخالفت کرتے ہوئے ویٹو پاور کا استعمال کیا تو کبھی رائے شماری سے ہی راہ فرار اختیار کر لی۔ یعنی امریکہ نے ہر اہم موقع پر فلسطینیوں کو جائز حقوق دیے جانے کیلئے کی جانے والی کوششوں کی حوصلہ شکنی کی ہے جبکہ دوسری طرف اقوام متحدہ کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ایک اجلاس تک نہیں بلا سکتے۔ اسرائیل نصف صدی سے زائد عرصہ سے نہتے فلسطینی
مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ہر روز بمباری اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں کے ذریعہ پھول جیسے بچوں کو مسلا جاتا ہے۔ بچوں،بوڑھوں اور خواتین سمیت کوئی فلسطینی اسرائیلی جارحیت اوراس کی بدترین دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے مگر کوئی اس غاصب سرطانی جرثومے اسرائیل کا ہاتھ نہیں روک رہا کہ وہ انبیاء کی سرزمین فلسطین پر آگ اور خون کی ہولی کیوں کھیل رہا ہے؟ سب بین الاقوامی طاقتیں اور ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر معصوم بچوں کے قتل و خون کی ایسی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اسرائیلیوں نے غزہ کو خاص طور پر کھنڈر بنا کر رکھ دیا ہے مگر اس کی بربریت رکنے میں نہیں آرہی۔ ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہیں۔ مظلوم فلسطینی مد د کیلئے پکا ررہے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ باہم متحدہو کر اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ جس طرح شاہ فیصل شہید رحمہ اللہ نے مسلم دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوشش کی ایک بار پھر انہی جذبوں سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ جیسے اداروں کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں یہ مسلمانوں کے مسائل کبھی حل نہیں کریں گے بلکہ ان کا مقصد ہی مسلمانوں کو تنازعات میں الجھانا ہوتا ہے۔برادر ملک سعودی عرب نے درست کہا ہے کہ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ پورے خطے کو غلط سمت میں دھکیل دے گا اور یہ کہ اس تنازع کا حتمی تصفیہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں ہونا چاہیے جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔او آئی سی نے بھی فلسطینیوں پر ظلم و دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کے توسیعی منصوبے کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے جبکہ پاکستان نے بھی فلسطین میں نہتے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اور مظلوم فلسطینیوں کو ایک صف میں کھڑا نہ کیا جائے۔ پاکستان ہر فورم پر مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرتا رہے گا۔ پاکستان میں عوامی سطح پرفلسطینی مسلمانوں پر ڈھائے جانے مظالم کے حوالے سے سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائے اور مسلم دنیا کو ساتھ ملا کر تمام بین الاقوامی فورم پر اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف نا صرف یہ کہ بھرپور آواز بلند کی جائے بلکہ آئندہ کیلئے متفقہ طور پر کوئی مضبوط لائحہ عمل بھی اختیار کیا جائے تاکہ مظلوم مسلمانوں کو غاصب قوتوں کی دہشت گردی سے تحفظ دلایا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button