ColumnNasir Naqvi

سیاست کہ مصلحت پسندی .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

تیل دیکھیں تیل کی دھار دیکھیں،اسحاق ڈار جوبرسوں سے سینیٹ کی سیٹ کا حلف نہ اٹھا سکے۔ حلف بھی اٹھالیا اورمعاشی بحران کا بھار بھی۔ ملکی معاشی چیلنجز اتنے آسان بھی نہیں کہ وہ آئے ہیں اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔خاصے پاپڑ بیلنے پڑیں گے،اناڑیوں اور کھلاڑیوں کے اقتدارکے پونے چار سال قدم قدم پر ہمارا امتحان لیں گے،کیونکہ آئی ایم ایف سے وعدہ خلافی نے ایسی بداعتمادی کو جنم دیا ہے کہ بین الاقوامی ادارے ہمارے قول و فعل کے تضاد میں ہم پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔مسلم لیگ نون اسحاق ڈار کی جادوئی صلاحیتوں کی قائل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسحاق ڈار ایسا لوٹا گھمائیں گے کہ گری ہوئی معیشت اچانک سر اٹھا لے گی اور بہتری کے سفر پر گامزن ہو جائے گی۔یہ بھی تصور کیاجارہا ہے کہ وہ سب سے پہلے دو دو ہاتھ ڈالر سے کریں گے کیوں کہ ان کے دور وزارت خزانہ میں ڈالر ان کے قابو میں تھااور روپیہ بھی تگڑا۔لیکن موجودہ حالات ماضی جیسے نہیں صرف امید کرنا تو جائز ہے نتائج حاصل کرنا مشکل ترین ہے ان کے پاس ڈالر زکی بوریاں بھی نہیں ہیںاور حالات اس حد تک بگڑے ہیں کہ صبح کچھ شام کچھ کسی کو نہیں معلوم کہ ملکی حالات کدھر جا رہے ہیں یا محدودوسائل میں حل کیسے تلاش کیا جا سکے گا۔ہمیں پتانہیں کہ اسحاق ڈار نے باقائم ہوش و حواس یہ چیلنج قبول کیا ہے یا کہ سابق ریکارڈ ہولڈروزیراعظم نواز شریف کی خواہش پر قربانی پیش کی ہے۔دعوے تو بہت ہیں بات تو جب بنے گی جب کچھ کرکے دکھائیں گے۔حالات منفی ہیں لہٰذا نتائج مثبت کیسے نکلیں گے۔سابق وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اسحاق ڈار کو ڈیل کے طور پر واپس لایا گیا ہے۔اور انہیں یہ بھی پتا چل گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات سے اقتدار ملا تھا اب حکومت ملی تو غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔تاہم یہ ابھی بھی نہیں معلوم ہو سکا کہ
حالات کیسے خراب ہوئے۔ایک زمانہ تھا خان صاحب ڈیل اور ڈھیل سے انکاری تھے،لیکن اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اقتدار کے لیے وہ ڈیل اور ڈھیل ہی چاہتے ہیں۔امید بہار تو عمران خان کی آمد پر بھی قوم نے رکھی تھی یہ معصوم قوم اسحاق ڈار کی آمد پر بھی اس غلط فہمی کا شکار ہے۔کھیت کھلیان اجڑ چکے ہیں، بستیاں بہہ گئی ہیں،باغوں کی ابتری ناقابل دید ہے، قومی خزانہ اور لوگوں کی جیبیں ہی خالی نہیں فیکٹریوں کی چمنیوں سے پہلے جیسا دھواں بھی نہیں اٹھ رہا۔مہنگائی نے قوت خرید ختم کردی اور حالات نے کاروبارٹھنڈے کر دیئے۔ ہر طرف معاشی بدحالی کا ماتم برپا ہے۔ پھر بھی اسحاق ڈار سے یہ توقعات کہ وہ آئے ہیں اور سب اچھا ہو جائے گا۔تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا،کیوں کہ نہ ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے۔اور نہ ہی الہٰ دین کا چراغ ہے میرے مطابق یہ صرف مقدمات سے خاتمے کے لیے ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ میری جمع تفریق میں مسلم لیگ نون کی قیادت نے ایک اور گھاٹے کا سودا کیا ہے۔مفتاح اسماعیل کے بعد ڈار صاحب کی ناکامی بھی دیوار پر لکھی ہے ۔اب کوئی پڑھنا نہ چاہے تو یہ اور بات ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سروے نشاندہی کر رہے ہیں کہ پاکستان کا معاشی بحران گھٹے گا نہیں بڑھے گا پھر بھی حکومتی دعوے مختلف ہیں۔عمرانی دور حکومت میں قومی اداروں کے غیر فطری فیصلے آئی ایم ایف
معاہدے کی خلاف ورزی، ڈالرز کی بے قابو پرواز اور روپے کی کمتری ایسے حقائق ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے عمران خان ابھی تک ڈرارہے ہیں۔کہ ملک سری لنکا جیسی صورتحال اختیار کرنے والا ہے۔وہ ایسا اس لیے کہہ رہے ہیں کہ انہیں پتا ہے کہ بارودی سرنگیں کہاں اور کس نوعیت کی ہیں۔اسی وجہ سے اتحادی حکومت نے سخت اور ناپسند فیصلے کرکے اپنے لیے تنقید کے نئے دروازے کھولے۔ان کا دعویٰ پہلے روز سے یہی تھا کہ ہم نے ریاست بچانے کی خواہش میں سیاست کی تباہی کا راستہ سوچ سمجھ کر چنا ہے۔ایسے میں انہیں چاہیے تھا کہ وہ مفتاح اسماعیل کو مشیربنا کر کام چلاتےیا عمران خان کی طرح کوئی آزمایاہوا مہرہ استعمال کرتے۔اسحاق ڈار کو قربانی کا بکرا نہ بناتے بلکہ اس بکرے کو آئندہ بڑی عید کے لیے رکھ لیتے عمرانی حکومت میں پہلے وزیرخزانہ اسد عمر بنے تھے، اطلاعات یہی ہیں کہ انہوں نے پاکستانی مفاد میں آئی ایم ایف کی منصوبہ بندی ناکام کرکے معاہدے پر مجبور کردیا تھالیکن عالمی اداروں نے اسے چیلنج سمجھتے ہوئے اسد عمر کا دھوبی پٹکاکرکے اپنا وفادار حفیظ شیخ کا تحفہ پیش کردیا۔ایسے میں آئی ایم ایف کا معاہدہ دوبارہ کرکے شرائط سخت ہوئیں۔آئی ایم ایف کے مفادات کا خصوصی خیال رکھا گیا۔پھر پاکستانی سیاست کی توڑ جوڑمیں حفیظ شیخ کی واپسی ہوئی۔عارضی طور پر قلم دان حماد اظہر کے سپرد کردیاگیا۔جب بات نہ بنی تو تجربہ کار بینک کار شوکت ترین کی خدمات لی گئیںاور انہیں مستقل کرنے کے لیے سینیٹر بھی بنادیاگیا۔اس وقت بھی ایسا ہی ہونا چاہیے تھالیکن معاشی اور سیاسی بحران میں حکومت کچھ کر نہیں سکی اور معاشی ٹیم کی قیادت کے لیے اسحاق ڈار کو بلالیاگیا۔اب اس بڑے فیصلے کے بعد بھی اگر اسحاق دار مثبت نتائج نہ دے سکے تو
بھی نئے سوالات ابھریں گے،بلکہ تنقید کا نیا طوفان بھی جنم لے گا۔اسی لیے میرے خیال میں اسحاق ڈار کو عبوری دور میں وزیرخزانہ بنا کرانہیں ضائع نہیں کرنا چاہیےکیونکہ یہ بات کسی سے چھپی نہیںکہ موجودہ دور ہرگز پانچ سالہ نہیں ہو سکتا۔اس لیے چند ماہ کے لیے کسی آزمائے کو نئے امتحان میں نہیں ڈالنا چاہیے۔حکومت اس سچ سے بھی واقف ہے کہ خان اعظم کا سوشل میڈیا بریگیڈ موجودہ دور میں سب سے زیادہ مضبوط ہے جو کسی بات کو بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر بتنگڑ بنانے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہے ،ایسے میں اسحاق ڈار کو ایشو بنانے کا موقع فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کیوں کر لی؟ ایسا لگتا کہ فیصلہ کسی خصوصی یقین دہانی پر کیا گیا ہے یا جلد بازی کا شاہکار ہے۔آنے والا وقت بتائے گا کہ کن مفادات اور فوائد حاصل کرنے کے لیے کیا گیا بظاہر یہ فیصلہ مسلم لیگ نون کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا ہے اور انہوں نے یکطرفہ بھی نہیں کیابلکہ مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا۔یقیناً لندن کا یہ خصوصی اجلاس جو نواز شریف کی صدارت میں ہوا یہ بھی عمرانی بریگیڈ کے لیے وقت گزاری کا بہترین نسخہ ہے مسلم لیگ نون اس کے عہدیداران یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر لوز گیند کو کھلاڑی خوب کھیلتے ہیں انہیں سیکنڈلز بنانے میں بڑی مہارت ہے۔ قائد مسلم لیگ نواز کی لندن میں کابینہ سے ملاقات سپہ سالار کی تقرری کی مشاورت پر عمران خان نے سوال اٹھا یا کہ ایک سزا یافتہ شخص کی مداخلت کیوں اور کیسے منظور کی جاسکتی ہے اور مسلم لیگی متوالے منہ دیکھتے رہ گئے۔کسی نے جرأت مندانہ انداز میں جواب نہیں دیاکہ نواز شریف کی سزا انتقامی ہے اور قائد سزا یافتہ ہی کیوں نہ ہو قائد ہوتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر صاحب اقتدار اپنی طاقت اور مصروفیت کے باعث ایسے مواقع مخالفین کے لیے پیداکرتا رہتا ہے۔کچھ کا خیال ہے کہ ایسا بائی چانس نہیں ہوتا ،ایک ڈیوٹی فل نادان دوستوں کا گروپ انتہائی قریب ہوتا ہے جو مستقبل کے معاملات کی پیشگی تیاری میں ایسے کرشمات دکھاتا ہے جنہیں ان کے خلاف برے وقت استعمال کیاجاسکے۔جیسا کہ لمحہ موجود میں عمران خان کے نزدیک شیخ رشید احمد اور فواد چودھری ہیں ایسے لوگوں کی لات پیروں سے بالکل مختلف ہوتی ہے لیکن یہ اپنی صلاحیتوں اور چند اہم معلومات کی بدولت قیادت کے چہیتے ہوتے ہیں جو زرہ برابر بھی شک نہیں ہونے دیتے کہ وہ کسی خاص مشن پر ہیں۔ان کی سب بڑی پہچان یہ ہے کہ یہ ہر اقتدار کے حصے دار ہونے کے باوجود نئے آنے والوں کے دلوں میں بھی گھر کر لیتے ہیں۔پھر حرف آخر یہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان حکمرانوں کی نالائقی اور عاقبت اندیشی میں اس وقت مشکلات کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے جسے نہ تو اسحاق ڈار نکال سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا نکالے گی اس کے استحکام اور روشن مستقبل کے لیے جو بھی کرنا ہے وہ دھرتی پر بسنے والوں نے اپنی وفاداری اور یکجہتی کے جذبے سے کرنا ہے۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو ان کے ارشادات کے مطابق اتحاد،تنظیم اور یقین محکم پر عمل پیراہوکر ہمیں دشمنوں کی سازش کو ناکام بنانا ہوگا۔پارلیمانی نظام چاہتے ہیں توہیں تو پارلیمنٹ کو مقدم جانتے ہوئے تمام معاملات اور سیاست تعمیری انداز میں کرناہوگی،جلائو گھیرائو احتجاج اور دھرناکوثانوی حیثیت ہوگی دھمکیوں کی بجائے رواداری اور برداشت کو اصول بنانا ہوگا۔پھر جمہوریت اور جمہوری اقدار کی مضبوطی سے ترقی و خوشحالی کی راہیں بھی مل جائیں گی۔ ورنہ پوری قوم اسی گومگوں میں رہے گی کہ ہمارے سیاستدان سیاست سے آشنا بھی ہیں کہ مصلحت پسندی سے گزارہ کررہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button