ColumnJabaar Ch

لیکس۔۔۔ .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

آج کالم نہیں نوحہ لکھ رہا ہوں ۔یہ نوحہ ہے اس پاکستان کا جس کا سارے کا ساروجود پنکچر ہے اورسب کچھ لیک کررہا ہے۔اس کے پیندے میں اتنے بڑے بڑے سوراخ ہیں کہ کوئی چیز ٹھہرنے کانام ہی نہیں لے رہی ۔پانامہ لیکس سے شروع ہونے والے اس کھیل نے وہ روپ اختیار کیا ہے کہ یہ کھیل رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔نفرتوں اور تقسیم کی کھیتی پک کرتیار کھڑی ہے ۔سن دوہزار اٹھارہ کے بعد سے سیاسی مخالفین کو ’’نُکرے‘‘ لگانے کی جو سوچ پروان چڑھی اس سوچ نے پتا نہیں کیا کیا نُکرے لگادیا ہے ۔اس ملک کا سیاسی سسٹم نُکرے لگ گیا۔ معیشت نُکرے لگ گئی ۔جس ملک میں سیاست صرف ایک طاقت کا کھیل بن جائے اس ملک میں تباہی کے سوا کچھ نہیں آتا کیونکہ طاقت حاصل کرنے کے بعد پہلی سوچ اور لالچ ہی اس طاقت کو دوام بخشنے کاآتا ہے اوردوام بخشنے کے لیے اس طاقت کے دوسرے دعویداروں کو راستے سے ہٹانالازمی بن جاتا ہے۔
سامنے آنے والی آڈیولیکس میں نیا شاید کچھ بھی نہیں لیکن عوام کے سامنے پہلی بار اتنے واشگاف اور واضح طریقے سے آرہا ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو سن رہے ہیں کہ وہ طاقت کے ایوانوں میں بیٹھ کرکرتے کیا ہیں ۔ ان کی سوچ کا وہ حصہ جو اس ملک اور عوام کے لیے وقف ہونا چاہیے ،وہ سوچ کن کاموں کے لیے وقف رہتا ہے۔یہاں عوام مررہے ہیں۔ روٹی خریدنے کے لالے پڑے ہیں اورحکومت کے ایوانوں میں دامادوں کے پلانٹ منگوانے اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے بجلی گھر منظورکرانے کی فرمائشوں کے چرچے ہیں۔ دوسری طرف ملک عالمی تنہائی کے دہانے پر ہے لیکن عدم اعتماد سے بچنے اورعوام کو بے وقوف بناکر احتجاج میں جھونکنے کے لیے ایک عام سی کمیونی کیشن کو امریکی سازش کارنگ دینے کی پلاننگ چل رہی ہے۔کہاجارہا ہے کہ امریکہ کا نام نہیں لینا ہم نے صرف کھیلنا ہے۔ ظالمو!آپ نے اس ملک کو کھیل بنادیا ہے۔اوران کے چمچے چیلے ’’رجیم چینج‘‘ کے بیانیے بنانے اورترویج پر لگ گئے ۔ ملک کی فوج کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔کچھ تو اس کھیل میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے ملک سے ’’فرار‘‘ بھی ہو گئے۔
عمران خان کی اپنے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے ساتھ امریکی سائفر کو سازش میں تبدیل کرنے کی پلاننگ کی آڈیوسامنے آجانے کے بعد رجیم چینج پر ایمان لانے والوں کے پاس کہنے اور کرنے کو کیا رہ گیا ہے؟خان صاحب آپ نے سیاست کرنی ہے کون روک رہا تھا۔ آپ نے پچھلے چار سال اپنے ہر مخالف کو جیل میں ڈلوادیا۔ سب کو چور کہہ لیا ،مزید کہتے رہتے لیکن عدم اعتماد کے بعد اس ملک کے خلاف اتنی بڑی سازش بُننے سے باز نہیں آئے؟ آپ مقبول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔لوگ اگر آپ کے ساتھ ہیں تو پھر کیا دوبارہ اقتدارایسے کسی ملک پر سازش کا الزام لگاکر حاصل کرنا تھا؟کیا آپ کو خود پر بھروسہ نہیں ہے؟جن لوگوں کی وجہ سے آپ خود کو مقبول کہتے ہیں کیا وہ لوگ آپ کو ووٹ دینے کو تیار نہ ہوتے؟۔
سیاست دان آپس میں لڑتے ہیں مقابلہ کرتے ہیں۔الزام بھی لگاتے ہیں لیکن اس طرح کا گنداکھیل شاید پہلی مرتبہ کھیلا جارہا ہے کہ اپنے اقتدار کے لیے ملک کو ہی داؤ پر لگایاجارہاہے۔یہ بات تو تشویش ناک ہے ہی کہ ہماری سلامتی اب سلامت نہیں رہی۔وزیراعظم ہاؤس تک محفوظ نہیں تویہاں کس ملک کا سربراہ آکر کوئی بات کرنا چاہے گا؟کیا کوئی سوچ رہا ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں ہم دنیا کی ساتویں بڑی آرمی رکھتے ہیں۔کیا یہ ملک اس طرح ’’ہم نے صرف کھیلناہے‘‘جیسے کھیل کھیلنے کے لیے رہ گیا ہے۔اس ملک کو سیاسی تقسیم کی ایسی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے کہ یہ آگ گھروں ،دوستوں ،رشتوں اور بازاروں تک آگئی ہے۔ سب لوگ سیاسی وابستگیوں سے ایک دوسرے کو تولنے لگ گئے ہیں۔غلامی ،آزادی اور حقیقی آزادی جیسے الجھاووں میں الجھادیا گیا ہے۔ حاصل صرف نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔جانتے سب ہیں کہ دونوں طرف مسئلہ صرف کرسی کا ہے لیکن ماننے سے انکاری ہیں۔
خفیہ آڈیوز کے جس پہاڑ کی باتیں ہورہی ہیں۔ڈارک ویب پر موجود ڈیٹا صرف شہباز
شریف یا نون لیگ کا نہیں بلکہ پچھلے چار سالوں کی وزارت عظمی ٰ کے دور کا بھی ہے۔ اسی میں سے امریکی سائفر والی آڈیو بدھ کے روزمنظرعام پر لائی گئی ہے۔یہ آڈیو جواب ہے ان آڈیوز کا جو شہباز شریف سے مریم نوازاور ان کے باقی وزرا کی گفتگو تھی۔جس طرح سے نفرت میں اندھا دھند آڈیولیکس کا دھندا چل رہا ہے اس آگ سے حکمرانوں اوراشرافیہ کے گھر بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔اگر اقتدار ہی چاہیے تو خدارا مل بیٹھ کر باریاں بانٹ لو بھائیو۔ٹاس کرلو ۔لے لو اقتدار لیکن اس ملک کا یہ حال نہ کرو۔ یہاں بائیس کروڑ لوگ رہتے ہیں۔ یہاں نوجوانوں کی شرح دنیا سے زیادہ ہے۔ ان کو یہاں اچھے مستقبل کی امید ہے۔آپ کے بچے باہر ہیں لیکن اس ملک کے بچے یہاں ہیں۔ ان کو روٹی چاہیے۔ گھر چاہیے۔روزگار چاہیے ۔ چہروں پر مسکراہٹ چاہیے۔
میری درخواست ہے کہ ہم نے صرف کھیلنا ہے والے سب لوگ اس کھیل میں ’’ٹائم آؤٹ‘‘ کرلیں ۔ دو دو قدم پیچھے ہٹیں اور سوچیں کہ وہ کرکیا رہے ہیں۔ جو وہ کررہے ہیں یا کرنے کی دوڑ میں ہیں اس سے فائدہ کس کو ہورہا ہے اورنقصان کس کے حصے میں آرہا ہے۔اقتدا رکے کھیل کو اتنا اندھا نہ بناؤ کہ کوئی اصول ہی باقی نہ بچے۔ا ب بھی وقت ہے اقتدار کے کھیل کے اصول بنالیں ۔ایک ساتھ بیٹھ جائیں ۔باریاں لینی ہیں باریاں بانٹ لو لیکن خدارا اس ملک کو عام پاکستانی کے رہنے کی جگہ رہنے دو۔
رواداری اور برداشت دوایسی نعمتیں ہیں جو معاشروں کو آگے لیکر جاتی ہیں ۔انہیں جمود سے نکال کرارتقائی منازل طے کرواتی ہیں۔ ہم ان روایات کے بطور مسلمان امین تھے لیکن اب یہ دونوں چیزیں ہماری زندگی سے غائب ہیں۔ان کی جگہ لالچ اورنفرت نے لے لی ہے۔ہمیں اپنے سواہرکوئی غدار لگتا ہے۔ کسی کا غلام لگتا ہے۔یہ کوئی سوچ نہیں بلکہ ایک ذہنی بیماری ہے اس بیماری سے بچنے کے لیے اپنی سوچ کو سوچنے کا چانس دیا کریں۔باتوں اور ایونٹ کا تجزیہ کرنا شروع کریں ۔اللہ نے آپ کو جو اچھے برے کی تمیز بخش رکھی ہے اس کوکام کرنے کا موقع دیا کریں ۔اگرآپ خود کو اپنی سوچ کے تابع کرنے کی عادت ڈال لیں گے توآپ بھیڑ چال میں کسی ہجوم کا حصہ بننے سے بچے رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button