Ahmad NaveedColumn

پطرس بخاری کا مزاح .. احمد نوید

احمد نوید

 

’’اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت میں بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہ ہے کہ اس کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں،جو صاحب اس کتاب کو کسی غیر ملکی زبان میں ترجمہ کرنا چاہیں وہ پہلے اس ملک کے لوگوں سے اجازت حاصل کرلیں‘‘
یہ تھے پطرس بخاری اوریہ تھی ان کی ہمہ جہت شخصیت۔
اردو کے صاحب طرز مزاح نگار، دسیوں کتابوں کے مترجم سید احمد شاہ المعروف پطرس بخاری دنیائے ادب میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کو اردو اور انگریزی زبان پر یکساں عبور تھا۔ اس کے علاوہ وہ کئی اور زبانیں بھی جانتے تھے اور اس کو لکھ پڑھ بھی لیتے تھے۔ ان کی پیدائش یکم اکتوبر 1898ء کو پشاور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر مکمل کی، شعری ذوق اپنے والد سے ورثے میںملا۔ 1912 میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسلامیہ کالج پشاور سے ایف اے ا ور بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے انگریزی ادبیات میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے انگلستان بھی گئے اور کیمبرج یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی۔پطرس بخاری کی انگلستان سے واپسی کے بعد 1922 لاہور کالج میں بحیثیت لیکچرار تقرری ہوئی جہاں وہ 1935 تک منسلک رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تدریس ن م راشد، فیض احمد فیض، کنہیا لال کپور، حنیف رامے، پطرس بخاری کے شاگرد ہوئے۔ فنون لطیفہ پر مہارت کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں ریڈیو کے باقاعدہ قیام کے بعد انہیں 1936 میں تدریسی کے عہدے سے ریڈیو کی طرف منتقل کر دیا گیا اور کچھ عرصے کے بعد وہ ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ پطرس بخاری نے ہی سب سے پہلے انڈین براڈ کاسٹنگ کا نام آل انڈیا ریڈیو منظور کرایا ۔ پطرس بخاری تقسیم ہند و پاک کے بعد پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے مستقل مندوب مقرر ہوئے۔ اقوام متحدہ میں خطیبانہ صلاحیت کی وجہ اقوامِ متحدہ میں پطرس بخاری کی تقریروں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے یا سلامتی کونسل میں یا کسی کمیٹی میں، گیلریاں صحافیوں کے علاوہ خود اقوامِ متحدہ کے کارکنوں سے بھر جاتیں۔ پطرس بخاری کی خطابت کو دنیا بھر کے اخباروں نے دل کھول کر سراہا۔
پطرس بخاری کی شخصیت مختلف خصوصیات سے آراستہ ہے۔ ان کی مزاح نگاری کو خصوصیت کے ساتھ سراہا جاتا ہے۔یقیناً ان کا مزاح سراہنے کے قابل بھی ہے۔وہ اپنے قارئین کو ہنسنانے کے لیے موضوع تلاش کرنے ادھر اُدھر قطعی نہیں بھٹکتے بلکہ عام زندگی کی حقیقتوں پر مبنی مزاح پیش کرتے ہیں۔
پطرس بخاری نے مزاح میں بہت زیادہ نہیں لکھا لیکن جتنا لکھا اور جو کچھ لکھا وہ ادب اردو کے صنف مزاح میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔پطرس بخاری کے مزاحیہ مضامین میں، ہاسٹل میں پڑھنا، کتے، مرحوم کی یاد میں، اردو کی آخری کتاب، لاہور کا جغرافیہ، سنیما کا عشق، میں ایک میاں ہوں، سویرے جو کل آنکھ میری کھلی، مریدپور کا پیر، انجام بخیر،اخبار میں ضرورت ہے‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
پطرس بخاری کے چند مضامین سے مزاح ملاحظہ ہوں۔
’’اب قاعدے کی رو سے ہمیں بی اے کا سرٹیفکیٹ مل جانا چاہیے تھا لیکن یونیورسٹی کی اس طِفلانہ ضد کا کیا علاج کہ تینوں مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا ضروری ہے‘‘
’’یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے کہ ہمیں پاس کر کے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے‘‘
’’خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کیے ہیں۔ کتے بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہوگا‘‘
’’ لاہور لاہور ہے اگر اس پتے سے آپ کو لاہور نہیں مل سکتا تو آ پ کی تعلیم ناقص اور آپ کی ذہانت فاتر ہے‘‘
’’جب دوستی پرانی ہو گئی ہو تو گفتگو کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی اور دوست ایک دوسرے کی خاموشی سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں‘‘۔
’’ آخر کار بائسیکل پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہو رہا ہو۔ زنجیر ڈھیلی ڈھیلی تھی۔ میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا، زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی جس سے وہ تن جاتی اور چڑ چڑ بولنے لگتی۔ پھر ڈھیلی ہو جاتی‘‘۔
’’ پچھلا پہیہ گھومنے کے علاوہ جھومتا بھی تھا۔ یعنی ایک تو آگے کو چلتا تھا، دوسرا دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کو بھی حرکت کرتا تھا۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑتا جاتا تھا، اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کے گزر گیا ہے‘‘۔
’’لاہور تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ لیکن دو ان میں سے بہت مشہور ہیں۔ ایک پشاور سے آتا ہے اور دوسرا دلی سے‘‘۔
پطرس بخاری کے مزاح کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے عام زندگی کی حقیقتوں سے مزاح پیدا کرکے اردو ادب کو اپنا مقروض کر دیا ہے۔ جس کے لیے وہ تادیر اہل ادب کے دلوں میں زندہ و تابندہ رہیں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button