ColumnKashif Bashir Khan

اکنامک ہٹ مین کی واپسی! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

پاکستان سے غالباً 2017میں اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے سرکاری طیارے میں علاج کی غرض سے لندن پہنچنے والے اسحاق ڈار کی واپسی ہو چکی اور انہیں پاکستان کا وزیر خزانہ بھی نامزد کردیا گیا ہے، اورعین ممکن ہے کہ یہ تحریر شائع ہونے تک اسحاق ڈار مملکت پاکستان کےوزیر خزانہ اور اپوزیشن کے بھرپور احتجاج میں پانچ سال بعد سینیٹر کا حلف اٹھا چکے ہوں۔ پاکستان میں رائج پارلیمانی نظام حکومت کی خرابیاں کھل کر سامنے آ چکی ہیں اور دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان اس وقت کسی بھی نظام کی عمل داری کے بغیر چلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ماضی قریب میں سنگین کرپشن کے کیسز میں عدالتوں کو مطلوب اور سزا یافتہ کی اکثریت اس وقت مرکزی حکومت میں بطور وزراء و مشیران براجمان ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سرعام تحریک انصاف کے ووٹ بیچنے والے20 سے زائد اراکین کو بھی ایسے عہدے دیئے گئے ہیں جن کی سہولیات وفاقی وزراء کے برابر ہیں۔جس ملک میں عوام کے دیئے ہوئے مینڈیٹ کو بیچنے والے اراکین اسمبلی کو خرید کر ایک سیاسی جماعت سے الگ کر کے لوٹا بنایاجائے اور پھر انہیں حکومتی وسائل سے نوازا جائے اس نظام کو کس طرح سے جمہوری پارلیمانی نظام کہا جا سکتا ہے۔
نور عالم خان جو تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے، انہوں نے اپنی وفاداری تبدیل کی اور وہ آج بھی اپنی آبائی حلقے میں جانے کے قابل نہیں، کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانا اس نظام کا نہ صرف مذاق اڑانے کے مترادف ہے بلکہ مرکزی حکومت کا یہ اقدام جمہوریت کے چیتھڑے اُڑا رہا ہے۔اندازہ کریں کہ جو شخص عوام کے مینڈیٹ سے غداری کر چکا ہووہ کبھی نیب کے چیئرمین اور کبھی سابق چیف جسٹس آف پاکستان کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بلانے کے نوٹس بھیج رہا ہے۔آج عوام کی اکثریت پوچھ رہی کہ جو شخص اپنی سیاسی جماعت سے وفا نہ کر سکا اور سب سے بڑی بات کہ وہ عوام کے مینڈیٹ کو روندتا ہوا،پارلیمانی سنگین بد دیانتی کا مرتکب ہوا، اسے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین کیسے بنایا گیا؟اسی طرح فیصل آبادکے ایک ایم این اے کو فلور کراسنگ کے جرم میں سزا ملنے کی بجائے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا بھاری عہدہ کیوں اور کس نے دیا؟ سپریم کورٹ سے اپنی سیاسی جماعت کی منشا کے خلاف ووٹ ڈالنے والے اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی کا ووٹ کاسٹ ہونے کے باوجود ان کی گنتی نہ ہونے کے فیصلے کے باوجود تحریک انصاف کے 20 سے زیادہ اراکین قومی اسمبلی کا قومی اسمبلی میں موجود رہنا اور حکومتی وسائل پر عیش کرنا نہ صرف نظام کی بدصورتی کو نمایاں کرتا ہے بلکہ چیف الیکشن کمشنر کا تحریک انصاف کا ان کیخلاف فلور کراسنگ کے جرم میں دی گئی درخواستوں کے باوجود ان کو ڈی سیٹ نہ کرنا اس وقت پاکستان بھر میں زیر بحث ہے اور الیکشن کمیشن کے اس اقدام نے عوام کی نظر میں ان کی توقیر و عزت ویسے ہی کم کی ہے جیسے الیکشن کمیشن کے تحریک انصاف کے خلاف کئے گئے 8 فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں نے خلاف آئین قرار دیتے ہوئے معطل کرنے پر ہوئی۔
پاکستان اس وقت آڈیو لیکس کی شدید اور خطرناک لپیٹ میں ہے۔شہباز شریف، خواجہ آصف، سردارایاز صادق،رانا ثنااللہ اور اعظم نذیر تارڑ کی تحریک انصاف کےمخصوص اراکین اسمبلی کے استعفےمنظور کرنے کے بارے میں لیک آڈیو اور اس کے بعد الیکشن کمیشن کا ویسے ہی کرنا جیسے آڈیومیں کہا گیا، نے اول تو چیف الیکشن کمشنر کا اس عہدے پر رہنے کا جواز ختم کر دیا ہے دوسرا عمران خان اور تحریک انصاف کے اس دعوے کو سچا ثابت کر دیاہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر نون لیگ و پیپلز پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ کئے ہوئے ہیں۔موجودہ مرکزی حکومت کی تمام تر ناکامیوں کے بعد جس قسم کی آڈیو لیکس تسلسل سے آ رہی ہیں، وہ ماضی کے بار بار آزمائے سیاست دانوں کی اصلیت اور کرپشن کو بری طرح بے نقاب کر رہی ہیں۔پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا مشورہ اور عوام کے سامنے پٹرولیم کی بڑھائی قیمتوں کے خلاف ڈرامہ۔عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی عمران حکومت کے بے مثال صحت کارڈ کو ختم کرنے کی بات اور پھر اپنے داماد کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں سرکاری خرچے پر پاور ہاؤس اور بھارت سے مشینری امپورٹ کرنے کی آڈیو لیکس نے عوام میں ان حکمرانوں کے اصل چہرے جو بڑے بھیانک ہیں، کھول کر رکھ دیئے ہیں۔ان آڈیو لیکس میں پاکستان کےپارلیمانی نظام کی بدصورتی بھی کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ کیسے ایک غیر منتخب خاتون وزیر اعظم ہاؤس کے اعلیٰ افسران اور سرکاری عہدے داروں پر اثر
انداز ہو کر ملک و قوم کے نہ صرف خزانے کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ عوام کو ملی ہوئی مفت علاج معالجے کی سہولیات کو بھی اپنے سیاسی فائدے کیلئے ختم کرنے کی بات کر رہی ہیں اور کس طرح وزیراعظم پاکستان بھی کہہ رہے ہیں کہ اسے ختم کرنے میں کوئی مشکل نہیں۔واضح رہے کہ حمزہ شہباز کے غیر آئینی وزیر اعلیٰ بننے پر پنجاب میں مفت علاج معالجے کی سہولیات بند کر دی گئی تھیں جو چودھری پرویز الٰہی حکومت نے بحال کر دی ہیں۔اگر ایک جانب سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی سرکاری معاملات میں دخل دیتی ہوئی آڈیو لیکس میں سنائی دیتی ہیں تو دوسری جانب وزیر اعظم ہاؤس کی سکیورٹی کا معاملات میں لیکیج ملکی سلامتی کے تناظر میں نہایت ہی خطرناک ہے۔بات شروع ہوئی تھی میاں نواز شریف کے’’اکنامک ہٹ مین‘‘اسحاق ڈار کی وطن واپسی سے۔اسحاق ڈار کی پاکستان واپسی پر میرے علم کے مطابق دو ورلڈ ریکارڈ بن چکے ہیں۔پہلا ریکارڈ تو یہ ہے کہ انہیں جب عدالتیں کرپشن کیسز میں بلا رہی تھیں تو وہ اس وقت کے وزیر اعظم شاید خاقان عباسی کے طیارے میں سوار ہو کر لندن پہنج گئے اور پھر اپنے آپ کو بیمار ڈکلیئر کر دیا۔اب ان کی واپسی بھی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے سرکاری جہاز میں ہوئی ہے۔یاد رہے کہ اسحاق ڈار اب تک عدالتوں کو مطلوب ہیں۔دوسرا ریکارڈ جو شاید دنیا کی تاریخ کا اکلوتا ریکارڈ ہو وہ سینٹ کا ممبر بننے کے پانچ سال بعد حلف اٹھانے کا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ اسحاق ڈار کی جانب سے پانچ سالوں تک سینیٹر کا حلف نہ اٹھانے کے باوجود سینیٹ کی سیٹ کو خالی قرار نہ دیا گیا۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں سابق حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت کی منی لانڈرنگ کے خالق بھی موصوف ہیں جنہوں نے لندن کی ساہیوال سے تعلق رکھنے والی اپنی محسن قاضی فیملی کو بتائے بغیر ان کے کاغذات پر اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کی تھی۔ بات پارلیمانی نظام کی بدترین ناکامی کی بھی ہو رہی تھی تو عوام کی اکثریت کو ارباب اختیار سے سخت گلہ اور شکوہ عمران خان کے ہر جلسے میں لاکھوں کی تعداد میں شرکت سے نمایاں ہو رہا ہے کہ مسند اقتدار پر ان لوگوں کی رسائی کیسے ہو گئی جنہوں نے ماضی کے قریباً 40 سالوں میں عوام کا بدترین استحصال کیا اور خود بیرون ملک جائیدادیں بنا کر اپنے کاروبار اور اولادیں بھی باہر پہنچا دیں۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ اسحاق ڈار کی ملک واپسی کا مقصد ملکی بدترین معیشت کی بحالی ہرگز نہیں اور ان کا ماضی بتاتا ہے کہ نہ ہی وہ معیشت ٹھیک کرنے کے اہل ہیں۔ اسحاق ڈار کو پاکستان بھیجنے کا مقصد ان کے سمدھی نواز شریف کی واپسی کا راستہ ہموار کرنا ہے اور ارباب اختیار کا ری ایکشن بھی چیک کرنا ہے لیکن موجودہ ملکی حالات شاید شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو اتنا وقت ہی نہ دیں۔ آج عوام کی اکثریت سوال پوچھ رہی ہے کہ اگر پاکستان میں رائج پارلیمانی نظام حکومت سنگین مالی مقدمات میں ملوث سیاست دانوں کو مسند اقتدار پر بٹھانے اور ان کے رشتہ داروں کو حکومتی اختیارات دینے کا نام ہے تو پھر یہ نظام اب کسی کو بھی قابل قبول نہیں ہے۔ موجودہ نظام حکمرانی اور نظام حکومت اس وقت بری طرح ناکامی سے دوچار ہو کر ریاست کے بنیادی تصور کو مسخ کر چکا ہے۔آنے ولے دنوں میں پارلیمانی نظام کا متبادل نظام بھی رائج کرنا ہو گا ورنہ اس ملک کو انارکی اور کرپشن کے چنگل سے چھڑانا ناممکن ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button