Ahmad NaveedColumn

ڈاکٹر آصف الرحمن کے نام ایک ماں کا خط .. احمد نوید

احمد نوید

میں نے ریڈیو پاکستان کیلئے پندرہ سال قبل ایک ڈرامہ لکھا تھا۔ یہ نیٹ ورک کا پلے تھا اور ریڈیو پاکستان کے تمام سینٹرز سے بیک وقت نشر ہوا تھا۔ اس ڈرامے کو بہت سراہا گیا اور بعد میں بھی کئی بار ری ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ اس ڈرامے میں چھے سالہ بچے کی کہانی تھی ، جس کے دل میں پیدائشی طور پر سوراخ ہوتے ہیں ۔ وہ بچہ اٹریل سپیٹل ڈیفیکٹ کی وجہ سے سست روی کا شکار رہتا ہے ۔
ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس گھرانے کو دل کے ڈاکٹرز جلد از جلد آپریشن تجویز کرتے ہیں ، مگر اُس بچے کی ماں لندن میں بیٹھی اپنی ایک سہیلی کے کہنے پر اپنے چھے سالہ بیٹے کی بیماری کے پیپرز کبھی لندن ، کبھی کینیڈا اور کبھی امریکہ بھجوانے کا سلسلہ جاری رکھتی ہے ۔ اُس چھے سالہ بچے کی ماں اپنی سہیلی کے سو نقص نکالنے پر لاہور کے کسی بھی سرکاری ہسپتال میں حتیٰ کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں بھی اپنے بیٹے کے دل کا آپریشن کرانے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی، جبکہ دوسری جانب اُس کا شوہر بیوی کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہماری اتنی حیثیت نہیں ہے ، خدارا اپنی سہیلی کی باتوں میں مت آئو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری اتنی حیثیت بھی نہیںکہ ہم اپنے بچے کا آپریشن کسی پرائیویٹ ہسپتال میں کروا سکیں ۔
قصہ مختصر آپریشن میں غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے وہ بچہ گھر میں کھیلتے ہوئے اچانک ایک دن گر پڑتا ہے ۔ نیم بے ہوش بچے کو لے کر اُس کے والدین فوراً پی آئی سی پہنچتے ہیں ۔ جہاں ڈاکٹرز بچے کو فوری داخل کرکے اُس کے والدین سے فوری آپریشن کی اجازت مانگتے ہیں ۔بچے کا باپ آگے بڑھ کر فوراً اجازت نامے پر دستخط کرکے ڈاکٹرز سے آپریشن کی درخواست کرتا ہے ۔چھے گھنٹے طویل جاری رہنے والے اس آپریشن کے اختتام پر ڈاکٹرز بچے کے والدین کو کامیاب آپریشن کی نوید سناتے ہیں ۔ یہاں بچے کے والدین کو اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ اُن کے بچے کے آپریشن کا کل خرچہ 36ہزار آیا ہے اور اگر وہ یہ پیسے ادا نہیں کر سکتے تو ہسپتال اُنہیں زکوۃ فنڈ سے یہ پیسے ادا کرنے کی سہولت فراہم کر سکتا ہے ۔
یہ ڈرامہ ایک سچے واقعے پر مبنی تھا، جسے بے حد سراہا گیا اور شاید میرے بھی یہ چند بہت اچھے ڈراموں میں سے ایک ہے ۔ اس ڈرامے کے یاد آنے کی وجہ ڈاکٹر آصف الرحمن ہیں جو آج کل
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں بچوں کے دلوں کو دیکھتے ہیں ۔ میری بیٹی عقیدت کے دل کی وجہ سے وہ میرے دل کے بھی قریب ہو گئے۔ ڈاکٹر آصف الرحمن کی اگر پندرہ بیس سال پرانی تصویر دیکھیں جو پی آئی سی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے ، تو وہ ہنستے مسکراتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔ آج کل وہ بہت سنجیدہ ہو چکے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے جیسے اُنہیں مسکرائے بھی صدیاں بیت گئی ہوں ۔ چند روز قبل ہونے والی ایک گفتگو میں اُنہوں نے بتایا کہ وہ ہفتے میں دو دن آئوٹ ڈور دیکھتے ہیں اور ایک دن میں سو سے زیادہ مریض ہوتے ہیں۔یہ پنجاب بھر سے آنے والے مریض ہیں اور اِن مریضوں میں سے کچھ اس قدر غریب ہیں اگر اُنہیں دو مہینے بعد کی کوئی تاریخ دے کر چیک اپ یا کسی ٹیسٹ کیلئے دوبارہ بلایا جائے تو عین ممکن ہے کہ وہ دوبارہ چیک اپ کیلئے ہی نہ آسکیں۔ ڈاکٹرآصف الرحمن نے مجھے ایک خط بھی دکھایا جو ایک غریب بچی کی ماں نے اُنہیں لکھا تھا ، وہ کچھ اس طرح سے تھا۔
اسلام علیکم ڈاکٹر صاحب!
میں آپ سے درخواست کرتی ہوں ، میری بچی کی طبیعت بہت خراب ہے۔میں بہت غریب ہوں اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں بار بار ہسپتال
آسکوں۔ اس لیے مہربانی فرما کر کچھ دن میری بچی کو ہسپتال میں رکھ کر اُس کا علاج کریں تا کہ اُس کی طبیعت کچھ سنبھل سکے ۔ میری بچی کی حالت بہت نازک ہے ۔ اُس کے دل میں شدید درد ہوتا ہے اور اکثر سانس تک رک جاتا ہے ۔ مہربانی فرما کر مجھ پر رحم کریں، ویسے تو رحم کرنے والی اللہ کی ذات ہے لیکن اُس ہستی نے اس دنیا میں آپ جیسے رحم دل انسان بھی پیدا کیے ہیں ۔ انسانیت کے ناطے میری بچی پر شفقت فرمائیں ۔ اللہ آپ کو غریبوں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
مدد کی طلب گار ایک دکھی ماں۔
ڈاکٹر آصف الرحمن کے پاس چیک اپ کیلئے آنیو الی ہر مریض بچی اور اُس کی ماں کی کہانی ایسی ہی ہے ۔سینکڑوں دکھی ، مجبور اور بے بس باپ اور دل کے شدید مرض میں مبتلا اُن کے کم سن بچے ۔ڈاکٹر آصف الرحمن کی مسکراہٹ ایسے ہی غائب نہیں ہوئی ۔ اُن کا چہرہ ایسے ہی نہیں مرجھایا ۔ ذرا سوچیں اگر لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بھی آج دل کے مریضوں کو دستیاب نہ ہوتا تو ہم کہاں کھڑے ہوتے ۔ ڈاکٹر آصف الرحمن اور اُن جیسے دوسرے ڈاکٹرز روزانہ کی بنیاد پر پی آئی سی میں سینکڑوں مریضوں کو دیکھتے ہیں۔
اس ہسپتال میں مریضوں کی تعداد کا اتنا رش ہے کہ مریضوں کو آپریشن اور ٹیسٹوں کی تاریخیں مہینوں بعد کی ملتی ہیں ۔ یہ انتظار کئی زندگیاں لے لیتا ہے ۔ کبھی کسی ، وزیر ، گورنر ، وزیراعلیٰ یا وزیر اعظم نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا آئوٹ ڈور دن کے وقت نہیں دیکھا۔ کبھی وہ اُس قطار میں لگ کر دیکھیں ۔ اُس مجبوری اور بے بسی کے کرب سے گزر کر دیکھیں ۔ ڈاکٹر ز اور ادویات تک رسائی کے درمیان حائل مشکلات کو بھگت کر دیکھیں ۔ شائد وہ اُس دکھ کو سمجھ سکیں جو لاکھوں کروڑوں پاکستانی اپنے سینوں پر جھیل رہے ہیں ۔
میری مقتدرہ اداروں ، وزیروں ، وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم شہباز شریف صاحب سے درخواست ہے کہ سٹیٹ آف دی آرٹ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ایک رول ماڈل کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے ۔ خدارا اِس کو دیکھتے ہوئے اسی جیسے مزید اور ہسپتال پنجاب ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں بنائیں ، تاکہ دل کے مرض میں تڑپتے ، سسکتے اور مہینوں انتظار کی آزمائش سے گزرتے ہوئے مریضوں کو اپنے ہی شہروں میں اچھے علاج کی فوری سہولت میسر آسکے۔
ڈاکٹر آصف الرحمن جیسی شخصیات اس قوم کے ہیرو اور مسیحا ہیں ۔ میں اُن سے درخواست کروں گا کہ اپنے چہرے کی مسکراہٹوں کو قائم دائم رکھیں ۔ ہنستے مسکراتے رہیں کہ اُن کی تجویز کردہ ادویات کے ساتھ ساتھ اُن کی مسکراہٹیں ہزاروں مریضوں کیلئے نئی زندگی کی نوید ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button