ColumnImtiaz Aasi

حکومت لانگ مارچ سے خائف ہے؟ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

سیاسی جماعتوں کو احتجاج کیلئے عدالت عظمیٰ نے گائیڈ لائن دے رکھی ہے ۔اس مقصد کیلئے پہلے ضلعی انتظامیہ کو درخواست دینا ہوتی ہے ا ور انتظامیہ احتجاج کرنے والی جماعت کیلئے جگہ مختص کرتی ہے ساتھ ہی گائیڈ لائن میں سٹرکوں کو بلاک نہیں کیا جائے گا تاکہ عوام کی زندگی میں خلل نہ آنے پائے۔پرامن احتجاج کسی بھی شہری کا حق ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کریں تو ان پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔عمران خان کے دور میں جے یو آئی نے دھرنا دیا مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کیا تو انہیں ایف نائن پارک میں جلسہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ عدالت عظمیٰ کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے احتجاج کیلئے گائیڈ لائن کے بعد کسی کو ڈی چوک میں جلسہ کرنے کیلئے حکومت پر دبائو نہیں ڈالنا چاہیے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ابھی عوام کو اسلام آباد آنے کی کال نہیں دی اس کے باوجود حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کئی ہزار ملازمین کو وفاقی دارالحکومت میں تعینات کر دیا ہے جو اس امرکی علامت ہے کہ حکومت تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے خائف ہے۔
1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران عوام نے دشمن کی ممکنہ بمباری سے محفوظ رہنے کے لئے خندقیں کھودی تھیں۔ تحریک انصا ف کے مارچ کو روکنے کیلئے اسلام آباد میںخندقیں کھودنے کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔سیاسی ادوار میں پرامن احتجاج جمہوری روایات کا حسن ہوتے ہیں البتہ ایسے احتجاج جن میں توڑ پھوڑ اور تشدد کی کارروائیاں ہوں تو قانون لازمی حرکت میں آتا ہے۔تعجب ہے ابھی عمران خان نے عوام کو اسلام آباد آنے کی کال نہیں دی کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو کچھ زیادہ پریشانی لاحق ہو گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ نواز شریف دور میں عمران خان نے علامہ طاہر القادری سے مل کر حکومت کے خلاف ڈی چوک میں طویل دھرنا دیا تو کیا حکومت ختم ہو گئی تھی؟عمران خان اسلام آباد آنے کی کال دے تو کم ازکم دو تین روز لگ سکتے ہیں ۔حیرت ہے کئی ہزار سکیورٹی اہل کاروںکو بکتر بند گاڑیوں اور آنسو گیس کے شیلوں کے ساتھ پہلے ہی اسلام آباد طلب کر لیا گیا ہے۔ ایک طرف ہم اپنی خراب معاشی حالت کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف کئی ہزار اہل کاروں کواسلام آباد طلب کرکے یومیہ کروڑوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں کئی ہزار ملازمین کی نفری کو تین وقت کا کھانا، کنٹینرز اور خندقیں کھودنے پر لاکھوں نہیں کروڑوں خرچ ہوں گے۔کئی ہزارسکیورٹی اہل کاروں کو کئی روز پہلے طلب کرنا حکومت کی کمزوری کی واضح دلیل ہے ورنہ احتجاج ہوتے رہتے ہیں ۔
یہ کبھی نہیں ہوا اسلام آباد آنے کی کال دی نہیں کہ ہزاروں اہل کاروں کو صوبوں سے طلب کر لیا گیا ہے۔بھٹو حکومت کے خلاف پی این اے نے تحریک چلائی تو جون1977 میں پی این اے سے مذاکرات کے باوجود حکومت کے خلاف تحریک رکنے نہیں پائی لہٰذا عوام کسی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو ان کے سامنے کنٹینرز اور خندقیں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔ جب سے پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا ہے، اشیائے خورونوش اور پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے نہ تو حکومت نے ملک کی معاشی صورت کی بہتری کیلئے ٹھوس اقدامات کئے ہیں اور نہ ہی عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانے کی سنجیدگی سے کوشش کی ۔ عمران خان کے دور میں نہ تو مہنگائی اس حد تک بڑھی تھی اور نہ ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہورہاتھا۔وفاقی وزیر داخلہ جس زبان میں تحریک چلانے والوں کو مخاطب ہوتے ہیں اس سے تو انتشار میں اور زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ وزیرداخلہ کا یہ کہنا کہ اگر صوبائی حکومتوں نے لانگ مارچ میں مدد کی تو کارروائی کی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ عوام عمران خان کی کال پر سٹرکوں پرآئیں گے تو صوبائی حکومتیں انہیں روک سکیں گی؟ عجیب تماشا ہے بجائے سیلاب
زدگان کے امداد کرنے کے کروڑوں روپے یومیہ سکیورٹی اہل کاروں پر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے اس نے جب بھی عوام کو کال دی لوگ سٹرکوں پر نکل آتے ہیں ۔تحریک انصاف کے گزشتہ مارچ کے دوران مسلم لیگ نون کی پنجاب حکومت نے عوام کے گھروں کی دیواریں پھلانگ کر تشدد کیا جن پولیس والوں نے اس کارروائی میں حصہ لیا وہ انکوائریوں کا سامنا کر رہے ہیںلہٰذا وقت ایک سا نہیں رہتا ۔کوئی حکومت کسی کے خلاف غیر قانونی اقدامات کرے گی تو ایک وقت آئے گا اسے اس کا حساب دینا ہوگا۔عمران خان نے تو لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے نہ کہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کو کہا ہے۔ وزیر داخلہ خود ہی اپنے بیانات میں انہیں وفاقی دارالحکومت میں چڑھائی کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کو اُچھالا جا رہا ہے، حیرت ہے اربوں روپے ڈکارنے والوں کو کسی نے پوچھا نہیں ۔حقیقت میں دیکھا جائے تو حکومت پی ڈی ایم کے گلے پڑ گئی ہے، حکومت چھوڑتے ہیں تو ناکام قرار دیئے جاتے ہیں ۔جس ملک میں 72 رکنی کابینہ ہو وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کی خاطرروز روز نئے نئے مشیر اور معاون بنائے جا رہے ہیں۔ کروڑوں لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ،انہیں پرسا دینے والا کوئی نہیں۔عمران خان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خیبر پختونخوا ، پنجاب، آزادکشمیر اور جی بی میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور عوام اس کی کال پر دیوانہ وار چلے آتے ہیں۔وفاقی حکومت ممکنہ احتجاج روکنے کیلئے نرم گوشہ اختیار کرنے کی بجائے احتجاج کرنے والوں کو دھمکیاں دے رہی ہے۔حقیقت تو یہ ہے وفاقی حکومت اخلاقی اور قانونی جواز کھو چکی ہے اور ہر محاذ پر اسے ناکامی کا سامنا ہے ۔اتحادیوں نے پی ایم ایل نون کو ایسے گرداب میں پھنسا دیا ہے جس سے نکلنا حکومت کے بس کی بات نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button