ColumnJabaar Ch

خوف کے بُت … جبار چودھری

جبار چودھری

اللہ تعالی نے صرف مسلمانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کیلئے زندگی گزارنے کے طور طریقوں،راستوں اور’’حرکتوں‘‘ پر رہنما اصول لکھ دیئے ہیں۔ ہمارے لیے اپنی کتاب اورمیری آنکھوں کی ٹھنڈک نبی کریمﷺکی سیرت اورسنت کے ذریعے ہر چیز کا تعین کردیا ہے۔بات صرف ہمارے سمجھنے اورعمل کرنے پر منحصر ہے کہ ہم اپنی زندگی کو آسان بناتے ہیں یا مشکل۔ کسی کی باتوں میں آکریا پیچھے لگ کر رائے قائم کرتے ہیں یا ان راہنما اصولوں کو سمجھ کرخودکوئی رائے قائم کرتے ہیں اور اسی کو درست سمجھتے ہیں۔

زندگی کے خوف ،امن اوربھوک پیاس کو سمجھنے کیلئے سورۃ قریش بہت ہی خوبصورت سورۃ ہے۔قریش وہ قبیلہ جس میں حضوراکرم محمد مصطفیٰﷺ پیداہوئے۔آپﷺکی بعثت سے کچھ عرصہ پہلے قریش کے قبیلے کی عزت اور تکریم میں اس قدر اضافہ ہونا شروع ہوگیاکہ سب سے طاقتورقبیلے کی بات ہو تو وہ قریش تھا۔سب سے امیر قبیلے کا تذکرہ ہوتو وہ قریش ، تاجروں کے قبیلے کی بات ہوتو وہ قریش۔عزت اور تکریم کی بات ہو تو وہ قریش۔ قریش قبیلہ حضورﷺکے جد امجد سے پہلے تک غریب بھی تھا اور کمزوربھی۔اس وقت قریش کے قبیلے کے ساتھ دو چیزیں لاحق تھیں ایک بھوک تھی اور ایک خوف تھا۔قریش چونکہ خانہ کعبہ کی دیکھ بھال کرتے تھے اس لیے ان کی عزت بھی مقصود تھی اور ان کا بے خوف ہونا بھی ضروری۔اسی لیے اللہ کریم نے قریش کو بھوک اور خوف سے چھٹکارا دیدیا۔ سورۃ فیل میں جن مضامین کو ذکر ہے اس میں درج ہے کہ ابرہ نے ہاتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ پرحملہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ابابیلوں کے ذریعے ہاتھیوں کے لشکر کو تباہ وبربادکرکے قریش کی عزت میں اضافہ کیا اور ان کو خوف سے امن بھی بخش دیا۔

جب حضورﷺ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو وہ ایمان لانے کیلئے تیار نہ تھے۔ اس موقع پر اللہ کریم نے سورۃ قریش نازل فرماکر ان کو یاد دلایا کہ تم کیا تھے اوراللہ نے تم پر کیا کیا احسان کیے۔ اللہ کریم نے فرمایا کہ قریش والو اللہ پر ایمان لاؤ اورکعبۃ اللہ کے رب کی عبادت کرو وہ رب جس نے تمہیں بھوک میں کھانا کھلایا اورخوف سے امن بخشا۔ یہاں بھوک اور امن کا اشارہ قریش کے ماضی اور حال کی طرف تھا۔اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کیلئے جو چیز قریش کو یاد دلائیں وہ بھوک میں کھانا اور خوف میں امن دینے کی تھی۔یہ حقیقت ہے کہ جب آپ نے کسی سے کوئی بات منوانی ہو تو اس پر اپنے احسان گنوائے جاتے ہیں اسی طرح اللہ کریم نے ایمان لانے کیلئے یہ دواحسان قریش کو یاد دلائے۔

خوف اوربھوک کے ایک ساتھ ذکر سے یہ بات صاف ہوتی ہے کہ خوف کا بھوک ،غربت سے گہرا تعلق ہے۔انسان اپنے اندر کوئی خوف کے بت پالتا ہے تو وہ خوف زندگی گزارنے کیلئے روزی روٹی کے بندوبست کا ہوتا ہے۔ روزگار کے چھن جانے کاہوتا ہے ۔جان کونقصان ہوجانے کے خوف کا بُت ہوتا ہے۔

آجکل عمران خان صاحب خوف کے بتوں کا ذکر اپنے ہر جلسے میں کرتے ہیں،لیکن ان کے خوف کے بتوں سے مراداور تشریح بھی ان کی اپنی ہی ہے۔ان کے نزدیک خوف کے بتوں سے مراد لوگوں کا پی ٹی آئی کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینایا ان کی حمایت کرنا ہے۔عمران خان خود ساختہ طورپرسمجھتے ہیں یا جان بوجھ کر اپنے کارکنوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس ملک میں ووٹ ملنے کا حق صرف ان کی ذات اور پارٹی کو ہے اور جو بھی پی ٹی آئی کے علاوہ کسی جماعت کو ووٹ دیتا ہے وہ شریفوں ،زرداریوں اورمولانا کے خوف کی وجہ سے دیتا ہے۔عمران خان جب لوگوں کو خوف کے بُت توڑنے کی تبلیغ کررہے ہوتے ہیں تو اس وقت وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ باقی جماعتوں کی حمایت چھوڑدیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ خوف ہے جو لوگوں کو باقی جماعتوں کو ووٹ دینے پر مجبورکرتا ہے۔

کیا واقعی ہم ایسے پاکستان میں رہتے ہیں یہاں لوگوں کو اللہ کریم کے بیان کردہ خوف کے بتوں کے علاوہ کسی سیاسی پارٹی کابھی خوف رہتا ہے۔ کیا ووٹ ڈالتے وقت جب ایک ووٹر بالکل
اکیلا ہوتا ہے۔جب اسے اپنی مرضی کرنے کا موقع دیاجاتا ہے وہ اس موقع پرکسی خوف کا شکار ہوجاتا ہے؟ اگر خان صاحب کی اس منطق کو مان لیا جائے تو کیا دیگر سیاسی جماعتوں کا خوف ایسا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ووٹرپر اثر نہیں کرتا؟یا پھر خوف کے یہ سیاسی بت صرف نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے لوگ ہی پال لیتے ہیں ؟کیا ایسا تو نہیں کہ خان صاحب لفظ خوف کا استعمال لوگوں میں اپنا خوف ڈالنے کیلئے کررہے ہوں؟

خیر!عمران خان اپناسیاسی بیانیہ کھینچنے کیلئے خوف کے بُت کا استعمال کریں یا اپنی شخصیت کے بُت کو استعمال کریں ان کی چوائس ہے لیکن اس وقت اگرخوف کے بُت کا کوئی شکار ہے تو عام پاکستانی سے زیادہ خود پاکستان ہے۔یہ خوف کا بُت بھوک ہے۔پاکستان کی معیشت تباہ حال ہے۔ سیاستدان الزامات کا کھیل کھیل سکتے ہیں کہ ذمہ دارکون ہے لیکن بات اس الزاماتی کھیل سے بہت آگے نکل گئی ہے۔پاکستان کی کرنسی تاریخ کی کمزورترین کرنسی بن رہی ہے لیکن اس کا حل کسی کے پاس نہیں کیونکہ ملک ڈالروں کی کمی کا شکار ہے۔ قرضوں کے کوہ ہمالیہ اپنا کام دکھا رہے ہیںاوپر سے سیلاب نے بہت کچھ ڈبودیا ہے۔پاکستان میں غذائی بحران جنم لے رہا ہے۔پنجاب جیسے صوبے میں یہاں گندم پیدا ہوتی ہے، آٹے کا بحران آگیا ہے۔پنجاب ، یہاں خان صاحب کی اپنی حکومت ہے وہ اس خوف کے بُت کو توڑنے کے بجائے وفاقی حکومت کے خلاف محاذآراہیں۔وہ دوصوبوں کی حکومت کے ساتھ وفاق پر حملہ آور ہونے کی کال دے رہے ہیں۔خان صاحب اگر آپ نے واقعی خوف کے بُت توڑنے ہیں تو خداراپاکستان کولاحق بھوک اور غربت کے خاتمے کیلئے کچھ کریں اور فی الحال آپ کو اور کچھ نہیں کرنا بلکہ پاکستان کی ریاست بچانے کیلئے کچھ عرصے کیلئے اپنی زبان کی تالہ بندی کرنی ہے۔سیاسی عدم استحکام کے پیڈل سے پاؤں ہٹانا ہے۔ الیکشن کے فوری مطالبے کے بجائے الیکشن کی تاریخ کا انتظارکرنا ہے۔اگرسیاسی استحکام میں آپ حصہ دارنہ بنے توپھر یہ ملک خدانخواستہ بھوک کے خوف کا شکار ہوسکتا ہے۔یہی وہ خوف ہے جس کا ذکر اللہ کریم نے سورۃ قریش میں کیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button