ColumnJabaar Ch

لڑائی .. جبار چودھری

جبار چودھری

ملک میں جاری اس چومُکھی لڑائی کا فائدہ کس کو ہوگا اس پر مختلف آرا ہوسکتی ہیں لیکن اس کا نقصان صرف اس ملک کو ہورہا ہے یہ طے ہے۔لڑائی صرف اقتدار کی ہے ایک فریق اقتدار میں رہنے کیلئے لڑرہا ہے اور دوسرا اقتدار واپس پانے کیلئے لڑرہا ہے۔یہ نہ کوئی اصول کی لڑائی ہے اور نہ ہی عوام کی محبت میں کوئی مرے جارہا ہے۔تیسری دنیا میں اقتدارمنہ کولگے خون کی طرح ہی ہوتا ہے کیونکہ نہ کوئی ذمہ داری نہ کوئی سوال جواب ۔جو عوام کو دینا ہووہ اپنا احسان اور جو چھیننا ہو وہ ملکی اورحکومتی مجبوری ۔یعنی نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اوررنگ بھی چوکھا۔اس لڑائی میں کس کی چونچ سلامت بچتی ہے اور کس کی دم غائب ہوتی ہے یہ دیکھنے کیلئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
اقتدار واپس پانے کی لڑائی لڑتے عمران خان صاحب اب ایک نیا فارمولہ لیکرآگئے ہیں کہ نیا آرمی چیف اگلے الیکشن کے نتیجے میں وجود میںآنے والی حکومت ہی تعینات کرے ۔میرے نزدیک یہ کوئی فارمولہ نہیں بلکہ پاک فوج پر ایک اور حملہ ہے ۔ عمران خان جان بوجھ کر نئے آنے والے سپہ سالار کومتنازع بنارہے ہیں ۔ یہ اصل میں پاک فوج کے ادارے پر بڑاحملہ ہے کیونکہ اب جس کوبھی موجودہ حکومت تعینات کرے گی اس کوعمران خان قبول نہیں کریں گے اوراگر کل کو عمران خان وزیراعظم بن جاتے ہیں تو ان کی تقرری دوسری سائیڈ کیلئے قابل قبول نہیں ہوگی۔اگر عمران خان واقعی پاکستان کی بہتری کیلئے اقتدارلازمی دوبارہ حاصل کرنے کی تحریک چلارہے ہیں تو کیا پاکستان کے اس عظیم الشان ادارے کو اس طرح جلسوں کی زینت بنانا زیب دیتا ہے؟
بار دیگرضبط تحریرمیں لائے دیتا ہوں کہ اس لڑائی کا عوام کو کوئی فائدہ نہ ہورہا ہے اورنہ ہی ہونے کی دوردورتک کوئی امید۔اس وقت اصل لڑائی وہ ہے جو اقتدار کی راہداریوں سے کہیں دوراس ملک کا غریب اپنے جسم اور روح کا رشتہ جوڑے رکھنے کیلئے کررہا ہے۔سیلاب کے عذاب نے اس لڑائی میں عام آدمی کا اور نقصان بلکہ ستیاناس کر دیا ہے ۔یہ پرتیں بھی کبھی کھل ہی جائیں گی کہ عدم اعتماد کیوں لائی گئی اورپھر اتنی بڑی مخلوط حکومت کیوں بنی اورشہبازشریف کس چکر میں لوگوں کی بدعائیں لے رہے ہیں ۔کہ جب کچھ کرنہیں سکتے عوام کیلئے تو کیوں چمٹے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ پٹی پڑھارہے ہیں کہ ملک کیلئے مشکل فیصلے کررہے ہیں لیکن یہ فیصلے اتنے مشکل ہوتے جارہے ہیں کہ ایک مہنگائی ہی اس عوام کو نگلے جارہی ہے۔ مہنگائی کے حساس اعشاریے پینتالیس فیصد اضافے کی خبردے رہے ہیں ۔اتنی مہنگائی ستر سالوں میں نہیں ہوئی جتنی ان چھ ماہ میں ہوگئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ حکومت ہمیں بہت ہی مہنگی پڑرہی ہے ۔مفتاح اسماعیل صاحب میڈیا کے سامنے آنسوبہارہے ہیں کہ لوگوں کو ان سے ہمدردی ہوجائے؟ مفتاح صاحب مسائل پررونے والے منیجر کوکوئی مالک نوکری پر نہیں رکھتا۔منیجرمسائل حل کرنے کیلئے رکھے جاتے ہیں مسائل بتانے کیلئے نہیں۔آپ نے آئی ایم ایف سے پیسے لینے کیلئے مشکل فیصلے کیے لیکن ڈالر ملنے کے باوجود روپیہ کمزورسے کمزورہوئے جارہا ہے۔روپیہ کمزور ہونے سے عالمی منڈی میں سستے تیل کا فائدہ بھی عوام کو نہیں ہورہا۔بجلی کے بلوں میں ہر مہینے اضافہ ایسا کہ لوگوں کا اگر بجلی کے بغیر گزاراممکن ہوتا تو کب کے میٹرکٹواچکے ہوتے۔
وزیراعظم صاحب آپ کی بہت سی مجبوریاں ہوں گی۔ ہمیں ان کا پاس ہے کہ معاشی حالت کمزور ہے۔ قرضوں کے پہاڑ تلے ہم دب چکے۔ تجارتی خسارہ دیوہیکل،برآمدات اوردرآمدات میں عدم توازن کا کوہ ہمالیہ، لیکن سارے مشکل فیصلوں کا بوجھ اس ملک کا عام آدمی ہی کیوں اٹھائے۔اگر حالات اس قدرنازک کہ خصوصی اقدامات کا تقاضاکررہے تھے تو پھر اس صورتحال اورمشکل حالات میں تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ رکھنے کا کوئی ایک جوازہے تو پیش کردیجئے۔مشکل حالات سے نمٹنے کیلئے تو تاریخ کی مختصر کابینہ بناکر عام آدمی کو پیغام دیتے کہ مشکل میں آپ ان کا سوچ رہے ہیں لیکن کیا اس کے الٹ۔ اس وقت حال یہ کہ وزیرزیادہ اور وزارتیں کم پڑ گئی ہیں۔کئی وزیر بے محکمہ اور بغیرقلمدان کے ہی گاڑیوں پر جھنڈے لگاکر خوش ہیں۔
ایسی کیا مجبوری تھی کہ ہر پارٹی کو خوش کرنا فرض عین بن گیا تھا۔ کیا حکومت میں شامل باقی جماعتوں کو یہ علم نہیں کہ ملک مشکل میں ہے؟اورپھر وزیرتو وزیریہ معاون خصوصی رکھنے میں کھلی چھوٹ نے اور کباڑہ کردیا ہے ۔اس وقت شہبازشریف کے سترہ معاون خصوصی ہیں، سب کے سب کو وفاقی وزیر یا وزیرمملکت کا درجہ اور مراعات دی گئی ہیں؟ اگر ملک کے حالات خراب ہیں تو اس کا خمیازہ صرف عوام ہی کیوں بھگتیں آپ لوگ کیوں نہیں؟آپ کو جو لوگ مجبورکرتے ہیں کہ فلاں کو مشیر رکھو، فلاں کو وزیراور فلاں کومعاون خصوصی ۔آپ ان کو اپنی مجبوری کیوں نہیں بتاتے کہ ملک کے حالات اس وقت سرکاری خزانہ لٹانے کے نہیں ہیں۔اگر آپ ایساکرنے میں بے بس ہیں تو پھر قوم کو بتادیں کہ اقتدارکا خون جو منہ کو لگا ہے اس کو چھوڑنے میں تکلیف ہورہی ہے ۔
آپ سب سے اس بات کا کریڈٹ مانگ رہے ہیں کہ آپ نے مشکل فیصلے کرکے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا لیا تو بہت بہت شکریہ آپ کا۔ یہ قوم آپ کا احسان یاد رکھے گی لیکن پھر سو باتوں کی ایک بات کہ اگر ڈیفالٹ سے بچنے کے بعد بھی مہنگائی بڑھنے کی رفتار میں پینتالیس فیصد کی تیزی ہے اور آئی ایم ایف اپنی رپورٹ میں دنگا فساد کا خدشہ دیکھ رہا ہے تو پھر ان مشکل فیصلوں کا فائدہ کس کو ہوا ہے؟کیا سرکاری خزانے سے مراعات پانے والوں کو فائدہ ہونا کافی ہے یا یہ قوم اوربائیس کروڑ بھی کسی گنتی میں رکھے جائیں گے ؟شہبازصاحب آپ وزیراعظم بن گئے ۔حکومت کرلی لیکن نون لیگ کے اہل اور تجرکار ہونے کا بھرم توڑدیا۔آپ سب لوگ عمران خان کی حکومت میں ہر سانس میں دوہزار اٹھارہ کی قیمتوں کی گردان کرتے تھے ۔لوگوں کو بھی اچھا لگتا تھا کہ اس دور میں مہنگائی نہیں تھی لیکن صرف پانچ ماہ لگے آپ کو اپنی پانچ سالہ کارکردگی پر پانی پھیرنے کو۔
آپ حکومت میں آگئے لیکن ایسے لگتا ہے کہ نہ آتے توشاید بہتر ہوتا ۔ پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی کی صوفیانہ غزل کا ایک شعر اس حکومت کو دیکھ کر بار بار ذہن میں آتا ہے لکھے دیتا ہوں۔
وہ بھی اپنے نہ ہوئے ، دل بھی گیا ہاتھوں سے
ایسے آنے سے توبہترتھا نہ آنا دل کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button