تازہ ترینخبریںپاکستان

توہین عدالت کیس : رانا شمیم نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے غیرمشروط معافی مانگ لی

سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ سے غیرمشروط معافی مانگ لی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ رانا شمیم نے اپنے وکیل عبدالطیف آفریدی کے ذریعے جواب داخل کرایا کہ عدلیہ کو سکینڈلائز کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، جب سے پروسیڈنگ شروع ہوئی ہیں تب سے دکھ اور افسوس کا اظہار کر رہا ہوں۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ میری غلط فہمی کی بنا پر جو صورتحال پیدا ہوئی شروع دن سے اس پر افسوس کا اظہار کرتا آرہا ہوں، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے جولائی 2018 میں چائے پر ملاقات کے دوران ان کی گفتگو سنی جنہوں نے جسٹس عامر فاروق کے بجائے سب سے سینیئر جج کے الفاظ ادا کیے تاہم دل کا مریض ہوں، بیان حلفی چونکہ تین سال بعد 72 سال کی عمر میں ذہنی دباؤ میں لکھا اس لیے غلط فہمی کی بنا پر سینیئر پیونی جج کی جگہ جسٹس عامر فاروق کا نام لکھ دیا۔

جواب میں کہا گیا کہ اس عدالت کا کوئی حاضر سروس جج اس تنازع میں شامل نہیں، اپنی غلط فہمی پر اس عدالت کے تمام حاضر سروس ججز سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں لہٰذا عدالت سے مؤدبانہ استدعا ہے کہ عدالت میری معافی قبول کرے۔

اس موقع پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت میں کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے، کوئی جینوئن معافی مانگے تو ہماری کوئی انا نہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ رانا شمیم اب بھی اپنے بیان حلفی پر قائم ہیں؟ ملزم کے وکیل نے کہا ہاں مگر جج کا نام غلط لکھا گیا ہے۔

اس پت چیف جسٹس نے کہا کہ بیان حلفی اور معافی دونوں ساتھ نہیں چل سکتے، اگر ایسا ہے تو یہ عدالت خود کو کلیئر کرے گی، معافی آدھے دل کے ساتھ نہیں مانگی جاتی، توہین عدالت میں کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے، کوئی کھلے دل سےمعافی مانگے تو اس عدالت نے ہمیشہ بڑے پن کا مظاہرہ کیا۔

رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نےکچھ مہلت دینےکی استدعا کی تو چیف جسٹس نےکہاکہ اپنا معافی نامہ بیان حلفی کی صورت میں جمع کرا دیں۔

رانا شمیم نے بیان حلفی آج ہی جمع کرانےکا کہا تو چیف جسٹس بولےآپ سوچ سمجھ کر ساری بات بیان حلفی میں لکھیں اور 19 ستمبر تک جمع کرائیں ۔

عدالتی معاون نے رانا شمیم کا نیا بیان حلفی بھی اخبار میں شائع کرانے کی تجویز دی تو چیف جسٹس نے کہا اس معاملے کو بھی دیکھ لیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button