Column

جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں

رفیع صحرائی
بچپن ہی سے سنتے آئے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ اس مقولے میں لفظ ’’ سب‘‘ اپنے اندر ہمہ گیر پہلو رکھتا ہے اس لیے جب بھی یہ مقولہ نما فقرہ سنا ذہن میں عجیب عجیب خیالات آ آ کر بہکاتے۔ ہم جیسے جنگ کے قابل تو ہوتے نہیں سو لے دے کے محبت میں معرکہ مارنے کے خوابوں پر ہی اکتفا کرنا پڑتا۔ وہ تو بہت دیر میں جا کر یہ عقدہ کھلا کہ اس مقولے کے ادھورے پن نے ہمیں ابہام میں الجھائے رکھا تھا۔ ہمارے ہوائی قلعے تعمیر ہونے سے پہلے ہی مسمار ہوتے چلے گئے جب اس مقولے کے اصل مفہوم کا پتا چلا کہ یہاں محبت سے مراد ’’ دورانِ محبت‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’ حصولِ محبت‘‘ ہے۔ تب ہماری مایوسی دیکھنے والی تھی۔ کیونکہ ہم تو ’’ حصولِ محبت‘‘ کے لیے ’’ جائز ذرائع‘‘ استعمال کرنے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتے تھے، ’’ ناجائز ذرائع‘‘ کا تو سوچ کر بھی ’’ کانپیں ٹانگ جاتی تھیں‘‘۔
ہم ہمیشہ سے ہی اس بات کے قائل رہے ہیں کہ ’’ محبت کی نہیں جاتی بلکہ ہو جاتی ہے‘‘۔ یار لوگ ہماری توجیہہ کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ اپنی بزدلی کو چھپانے کے لیے ہم ایسا کہتے ہیں۔ ان کہنا تھا کہ ’’ جھوٹی عزت کی تلاش عاشقوں کا وتیرہ نہیں۔ وہ محبت ہی کیا جس میں رسوائی نہ ہو‘‘ اس لیے متوقع محبوب کی لعن طعن اور اس کے بھائیوں، چچا، تایا، ماموں، کزنز یا باپ سے جوتے کھا کر بھی وہ کبھی بدمزہ نہیں ہوتے تھے بلکہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔ اور ایک ہم تھے کہ اگر کوئی دل کو بھایا بھی تو سامنا ہونے پر ہونٹ پتھرا گئے اور دل کی دل میں ہی رہ گئی۔ نتیجے کے طور پر کوئی اور اسے لے اڑا اور ہم دل کو سمجھانے بیٹھ گئے کہ ’’ جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں۔ جو تیرے قابل ہوا تجھ مل جائے گا‘‘
گزشتہ دنوں دوستوں نے ہم پر اجتماعی یلغار کر دی کہ بس بہت ہو گیا۔ اپنی بزدلی کو شرافت کے بند خول سے نکالو اور ہمت کرو ورنہ ساری عمر
خالی ہاتھ ملتے رہ جائو گے۔ کوشش کرنے سے ہی گوہرِ مقصود ہاتھ آتا ہے۔ اس کے لیے جائز ناجائز کے چکر سے باہر نکلو، محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ انہوں نے مشہور مقولہ دوہرا کر ہماری سوئی ہوئی غیرت کو جگانے کی کوشش کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم بھی قائل ہو گئے اور ’’حصولِ محبت‘‘ کے مختلف طریقوں پر سنجیدگی سے غور فرمانے لگے تھے کہ ہمارے دوست بشیر خاں کراچی والے نے ایک واقعہ سنا کر ہمیں پھر زیرو پوائنٹ پر پہنچا دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ
کراچی کے علاقے منگھو پیر میں چند ماہ قبل 15سالہ طالبعلم بچہ اغوا ہوگیا۔ اغوا کاروں نے رہائی کیلئے 5لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔ والدین غریب تھے۔ پیسے ادا نہیں کر سکتے تھے۔ ان کا رو رو کر برا حال تھا۔ پیسے ادا کرنے کی سکت نہ تھی اس لیے بیٹے کے انجام سے خوفزدہ تھے۔ بچہ جہاں پڑھتا تھا اسی اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے خدا ترسی کی ٹھانی۔ تاوان کی رقم اس نے اپنے پاس سے دینے کا اعلان کر دیا کہ غریب والدین کو ان کا بیٹا واپس مل جائے اس سے بڑی نیکی کیا ہو گی دنیا میں۔ والدین خوشی سے نہال ہو گئے کہ ہیڈماسٹر کو خدا نے فرشتہ بنا کر بھیجا ہے۔ وہ اس کی نیکی کا بدلہ کبھی بھی نہیں چکا سکیں گے۔
یہ معاملہ پولیس تک بھی پہنچ چکا تھا۔ والدین اغوا کی درخواست دے چکے تھے لیکن اب اس پر کارروائی نہیں کروانا چاہتے تھے کہ ہیڈماسٹر صاحب کی وجہ سے انہیں ان کا بیٹا واپس مل رہا ہے تو پولیس کی مداخلت سے کہیں معاملہ بگڑ ہی نہ جائے۔ ان کے بیٹے کی زندگی کو ہی خطرہ لاحق نہ ہو جائے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کی صائب رائے بھی یہی تھی کہ اگر وہ خود پیسے دے رہے ہیں اور والدین کو ان کا بیٹا بھی واپس مل رہا ہے تو بہتر یہی ہے کہ پولیس کو ملوث نہ کریں۔ آج کل کے حالات کا تو پتہ ہی ہے۔ یہ نہ ہو اغوا کاروں کو اس کی بھنک پڑے اور وہ غصے میں کوئی انتہائی قدم اٹھا لیں۔ والدین نے پولیس کو منع کر دیا۔
درخواست واپس ہونے کے باوجود پولیس نے اپنے طور پر کارروائی جاری رکھی۔ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل اور سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے دو دن بعد ہیڈ ماسٹر کو ہی گرفتار کر لیا۔
کہانی کیا تھی؟
ہیڈ ماسٹر صاحب اپنے سکول کے اس طالبعلم بچے کی بہن سے محبت کرتے تھے اور شادی کے خواہاں تھے۔ بچے کو اپنے ایک ساتھی کی مدد سے اغوا کرایا۔ خود ہی تاوان کا مطالبہ کیا اور خود ہی خود کو تاوان کی رقم ادا کرنے پر بھی تیار ہو گئے۔ وہ رشتہ بھجوانے سے پہلے اپنے سسرال والوں کے دل میں اپنے لئے نرم گوشہ اور نیک جذبات پیدا کرنا چاہتے تھے۔ یہ طریقہ سوجھا کہ والدین کا اعتماد جیتنے کے لیے ان پر احسان کیا جائے اور جب رشتہ بھیجا جائے تو وہ انکار نہ کر سکیں
ماسٹر مائنڈ ہیڈ ماسٹر فضل صاحب اور ان کے دوست ارسلان صاحب پولیس کے مہمان بن گئے۔ انجام کیا ہوا؟ اس سے بشیر خان لاعلم ہیں مگر ہمارے لیے یہی اشارہ کافی تھا کہ انہیں پولیس نے دھر لیا۔
نشرِ مکرر
ہیڈ ماسٹر صاحب ’ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے‘ کا عملی نمونہ پیش کر رہے تھے۔ میرا ایمان اس بات پر مزید پختہ ہو گیا ہے کہ جوڑے
آسمانوں پر بنتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button