امپیریل کالج لندن کے طبی انجینئروں نے منی ایم آر آئی سکینر کا پروٹوٹائپ تیار کرلیا ، جو جسامت اور وزن کے اعتبار سے موجودہ ایم آر آئی سکینرز کے مقابلے میں تقریباً آدھا ہے جبکہ کارکردگی میں اس کے مساوی ہے۔ اب تک اس مختصر ایم آر آئی سکینر کو جانوروں کی ہڈیوں اور جوڑوں کے اندرونی عکس لینے میں کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے جبکہ اس کی انسانی آزمائشیں اگلے سال سے شروع ہوں گی۔ میگنیٹک ریزونینس امیجنگ یا ایم آر آئی کے میدان میں یہ نہایت اہم پیش رفت ہے کیونکہ اس وقت استعمال ہونے والی ایم آر آئی مشینیں نہ صرف کئی ٹن وزنی ہوتی ہیں بلکہ انہیں نصب کرنے کیلئے بھی ایک بڑا اور خاص طور پر بنایا گیا، ایئر کنڈیشنڈ کمرہ درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم آر آئی مشینوں کے اخراجات صرف بڑے ہسپتال ہی برداشت کرسکتے ہیں جبکہ صرف ایک ایم آر آئی سکین کا معاوضہ 50 ہزار روپے یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ طبی تحقیقی جرید ے میگنیٹک ریزونینس ان میڈیسن کے تازہ شمارے میں شائع شدہ مقالے کے مطابق، ایم آر آئی سکینر کو مختصر بنانے کا راز اس جادوئی زاویئے پر ہے کہ جس پر مقناطیسی میدان (میگنیٹک فیلڈ) کو کم فاصلے پر بہتر انداز میں مرکوز کیا جاسکتا ہے اور جسم کی اندرونی عکس نگاری بھی واضح کی جاسکتی ہے۔ مختصر ایم آر آئی ایجاد کرنے والی ٹیم کی سینئر ریسرچر، ڈاکٹر کیرن چیپل کے مطابق، یہ زاویہ 55 ڈگری کا ہے جس پر اندرونی ٹشوز زیادہ روشن نظر آتے ہیں جبکہ مقناطیسی میدان بھی ہماری ضرورت کے مطابق مرکوز ہوجاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں یہ مختصر ایم آر آئی سکینر کھیل کے میدان میں زخمی ہوجانے والے کھلاڑیوں کو فوری طبی امداد پہنچانے میں استعمال کیا جائے گا۔ اس کی قیمت کتنی ہوگی اور یہ کب تک دستیاب ہوسکے گا؟ اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ اگلے مرحلے میں اسے انسانوں پر آزمایا جائے گا اور اگر یہ کامیاب رہا تو پھر اس کی تجارتی پیمانے پر تیاری شروع کی جائے گی۔