ColumnJabaar Ch

93کی تاریخ ۔۔۔۔ .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

1990میں صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹوکی حکومت کوآٹھویں ترمیم کے ذریعے آئین میں ڈالے گئے آرٹیکل 58ٹو بی استعمال کرتے ہوئے چلتا کردیا۔نوے دن میں عام انتخابات ہوئے اوریہ الیکشن اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی)نے جیت لیا۔مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں محمد نوازشریف پہلی مرتبہ ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ وہ وزیراعظم بنے تو صدرغلام اسحاق کوجب بھی دیکھتے ان کو صدر سے زیادہ ان کے ہاتھ میں پکڑی اٹھاون ٹوبی کی وہ تلوار ہی نظر آتی جس تلوار سے وہ جب چاہتے نوازشریف کی حکومت کو گھربھیج سکتے تھے۔اسی صدارتی اختیار کی وجہ سے نواز شریف اورغلام اسحاق خان میں دوریاں پیدا ہو گئیں۔ یہ دوریاں بڑھتی بڑھتی لڑائی اور باقاعدہ تناؤ کی شکل اختیارکرگئیں۔
یہ 17اپریل 1993کادن تھا جب وزیر اعظم میاں نوازشریف نے قوم سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا۔رات آٹھ بجے یہ خطاب پاکستان ٹیلی وژن پر نشرکیا گیا۔اس خطاب میں نوازشریف نے صدرغلام اسحاق خان پر اپنی حکومت کے خلاف کام کرنے کے الزامات لگائے۔انہوں نے اپنے خدشات قوم کے سامنے رکھ دیے۔خطاب ختم ہوا توساتھ ہی ایوان صدرمیں اس خطاب کی تپش محسوس ہونا شروع ہوگئی ۔صدر نے میاں نوازشریف کی حکومت کو رخصت کرنے کا ذہن بنالیا۔کاغذی کارروائی کے لیے رات گئے تک کام چلتارہا۔ نوازشریف کی حکومت گرانے کے لیے وہی الزامات کی فائل تلاش کی گئی جو الزامات لگاکرغلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹوکی حکومت کو رخصت کیا تھا۔جو چارج شیٹ بتائی گئی وہ یہ تھی کہ نوازشریف کی حکومت میں کرپشن بہت زیاد ہ ہوگئی ہے اس لیے صدرمملکت نے اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یوں غلام اسحاق خان نے 18اپریل 1993 کو میاں نوازشریف کی حکومت تحلیل کرکے نگران حکومت قائم کردی۔ساتھ ہی نوے دنوں میں الیکشن کا بھی اعلان کردیا۔الیکشن کی تاریخ 14 جولائی رکھی گئی۔ایک’’ فن فیکٹ‘‘ یہ بھی تھا کہ نگران حکومت میں آصف علی زرداری کو بھی نگران وزیربنادیا گیا تھا۔اسمبلی کی تحلیل کے بعد نواز شریف نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا اور صدارتی فرمان کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔سپریم کورٹ کے اس وقت چیف جسٹس نسیم حسن شاہ تھے، انہوں نے اس اہم ترین نوعیت کے کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ جو اس وقت گیارہ ججز پر مشتمل تھی اس کا فل کورٹ بینچ بنادیا۔کیس کی سماعت شروع ہوئی تو نوازشریف کے وکلا نے عدالت کے سامنے یہ مؤقف اپنایا کہ اسمبلی کی تحلیل غیرآئینی ہے۔صدر غلام اسحاق نے نوازشریف سے ذاتی عناد کی وجہ سے اسمبلی تحلیل کی ہے،ایک اور اہم بات کہ اس کیس میں نوازشریف کے وکیل 1956 میں حکومت سے نکالے گئے وزیراعظم چودھری محمد علی کے بیٹے چودھری خالد انورتھے۔ان کے سامنے ان کے اپنے والد کو حکومت سے غیرآئینی طریقے سے نکالے جانے کا کیس بھی تھااس لیے انہوں نے اس کیس کو تاریخی حوالے سے بھی عدالت کے سامنے پیش کیا۔ایک اور فن فیکٹ یہ تھا کہ اس کیس کو سپریم کورٹ میں نوازشریف کے ساتھ ساتھ اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب نے بھی چیلنج کیا تھا۔گوہر ایوب سابق ڈکٹیٹر ایوب خان کے بیٹے اور پی ٹی آئی کے موجودہ رہنما عمرایوب خان کے والد ہیں۔
اس کیس کی سپریم کورٹ میں تین ہفتے تک روزانہ سماعت ہوتی رہی ۔عدالت نے 26مئی 1993کو اس کیس کا فیصلہ نوازشریف کے حق میں سنادیا۔میاں نوازشریف کی اسمبلی بحال کردی گئی۔ نگران حکومت ختم اورعام انتخابات کا فیصلہ منسوخ کرنے کا حکم سامنے آیا۔یہ فیصلہ ایک جج کے اختلاف کی وجہ سے متفقہ نہ بن سکا۔ گیارہ میں سے دس ججوں نے نوازشریف کی حکومت بحال کرنے کا فیصلہ دیا۔حکومت کی بحالی کا فیصلہ بے نظیر بھٹونے توپسند نہ کیا لیکن پیپلزپارٹی کے ایم این ایزنے اس فیصلے کوخوش آئند ضرورکہاکہ جانتے وہ بھی تھے کہ صدرصاحب نے غیرآئینی کام کیا تھااور وہ خود بھی اس کاشکار ہوچکے تھے۔یہاں تک کہ بے نظیر دور کے وزیرقانون افتخار گیلانی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کوجمہوریت کی مضبوطی کے لیے اہم قدم قرار دیا۔
اسمبلی بحال ہونے کے بعد کے واقعات بھی دلچسپ ہیں لیکن وہ آ ج کا موضوع شاید نہ ہو۔ نوازشریف دوبارہ وزیراعظم توبن گئے لیکن ایوان صدرسے لڑائی میں شدت آگئی۔اس دوران اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑدرمیان میں آئے اور مشہور زمانہ کاکڑفارمولہ پیش کردیا اس فارمولے کے تحت وزیراعظم نے استعفیٰ دیا ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کردیا گیا لیکن وزیراعظم جاتے جاتے منتخب حکومتوں کوگھر بھیجنے والے صدر غلام اسحاق خان کا بھی سرلے گئے۔اس سمجھوتے کے تحت صدر غلام اسحا ق خان کو بھی استعفیٰ دے کر گھر جانا پڑا۔سپریم کورٹ سے بحال کی گئی اسمبلی دوماہ بعد دوبارہ تحلیل کرکے عام انتخابات کروائے جن کے نتائج پیپلزپارٹی کے حق میں آئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری بار پاکستان کی وزیراعظم بن گئیں۔
اس وقت بھی حالات کچھ اسی طرف ہی جا رہے ہیں گوکہ اس وقت معاملہ قومی اسمبلی کی تحلیل کا نہیں بلکہ دوصوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا ہے۔بات پنجاب اور خیبرپختونخوامیں الیکشن کی تاریخ سے شروع ہوئی تھی جو لاہور ہائی کورٹ سے الیکشن کمیشن، وہاں سے گورنرپھر صدر پاکستان اور اب سپریم کورٹ تک پہنچ چکی ہے۔سپریم کورٹ نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیااور نورکنی لارجربینچ تشکیل دے کر جمعرات کو سماعت شروع کی تو اس بینچ میں شامل دومعزز ججز نے بینچ کی تشکیل اور اس بینچ میں شامل ایک معزز جج صاحب پراعتراض کردیا۔اگلے دن پی ڈی ایم کی حکومت کے وکیل نے عدالت میں پیش ہوکر حکومت کی طرف سے بینچ میں شامل دو ججز پر اعتراض اٹھادیااور ان کو بینچ سے الگ کرنے کی درخواست کردی ہے۔ان تمام معاملات پر کوئی فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔ اس سوموٹوپر باقاعدہ سماعت آج سے شروع ہوگی ۔شواہد اور قرائن اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ معزز چیف جسٹس صاحب ان اعتراضات کے بعد حکومتی مطالبہ مانتے ہوئے فُل کورٹ بناکراس اہم مقدمے کی سماعت کریں گے۔یہی ایک صورت بہترین ہوگی کہ اس کیس کو سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ بنادیا جائے تاکہ کسی کوبھی بینچ یا معزز جج پر اعتراض کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔
الیکشن کی تاریخ کے لیے بہت سا وقت ضائع کردیا گیا ہے ۔ آئین کہتا ہے کہ نوے دن میں الیکشن ہوجائیں لیکن آئین کے دوسرے تقاضے بھی موجود ہیں کہ الیکشن کے وقت پورے ملک میں نگران حکومتیں قائم ہوں ۔اگر اس وقت دو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کروائے جاتے ہیں تو مرکز میں نگران حکومت نہیں ہوگی اور کل کو جب قومی اسمبلی کے الیکشن ہورہے ہوں گے تو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگران سیٹ اپ نہیں ہوگا اس لیے یہ بالکل ہی ایک نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس لیے اس کا حل بھی نیا نکالا جانا ضروری ہے۔فل کورٹ بینچ کے پاس اب اتنا وقت بھی نہیں بچا کہ وہ الیکشن کی تاریخ دیں اورنوے دن والا آئینی تقاضا پورا ہوسکے کہ الیکشن شیڈول کے لیے کم از کم پینتیس دن درکار ہوتےہیں۔
اسی بینچ کے دو معزز ججز نے دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا معاملہ بھی اٹھادیا ہے ۔اب عین ممکن ہے کہ سماعت کا رخ الیکشن کی تاریخ سے پہلے اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے کی طرف مڑجائے۔اگر 1993میں اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے صدر غلام اسحاق خان کے پاس کوئی خاص جواز نہیں تھا تو یہ دو اسمبلیوں کی تحلیل کا جواز تو صرف اتنا ہی ہے کہ جناب عمران خان کی خواہش تھی کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کیے بغیر تحلیل ہوجائے، توکردی گئی ۔یہ جواز بالکل بھی ایسا نہیں ہے کہ کسی حکومت کو مدت پوری نہ کرنے دی جائے۔اور پھر چودھری پرویزالہٰی کے بیانات اور سوچ بھی سب کے سامنے ہے توعین ممکن ہے کہ 1993والی تاریخ خود کودہرائے اور سپریم کورٹ سے یہ فیصلہ آجائے کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل غیر آئینی ہے اس لیے الیکشن کی تاریخ کا سوال ختم کیا جاتا ہے۔نگران حکومتیں ختم اور دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں بحال کرکے مدت پوری کرنے کاحکم دیا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button