Editorial

سودی نظام کا خاتمہ

وفاقی شرعی عدالت نےبیس سال بعد سودی نظام معیشت کے خلاف دائر مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیرشرعی قرار دے کر حکومت کو سودی نظام کے مکمل خاتمے کے لیے پانچ سال کی مہلت دے دی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ مقدمہ کے تمام فریقین، اٹارنی جنرل، مذہبی سکالرز، علماء اور مفتیان کرام کو تفصیلی طور پر سنا گیا۔ انٹرسٹ فری بینکنگ قابل عمل بینکاری ہے، یہ عدالت وفاقی حکومت کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتی کہ یہ قابل عمل نظام نہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ ملک میں ربا سے پاک بینکاری بھی ہورہی ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کا قانون بھی سود سے پاک بینکاری کی اجازت دیتا ہے۔ ربا کو ختم کرنا مذہبی اور آئینی فریضہ ہے اور اسلامی نظام معیشت قابل عمل طریقہ کار ہے۔ اس سے ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو گی۔ اسلامی نظام معیشت ربا کی ممانعت کرتا ہے اور ربا کی روک تھام ہی اسلامی نظام معیشت کی بنیاد ہے۔ ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے کا مجوزہ بل قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے موقف اختیار کیاگیا تھا کہ پورا پاکستان اپنے سودی نظام کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے خلاف جنگ میں مصروف ہے اور سود کے خاتمے کے بغیر ہم کوئی جنگ جیت نہیں سکتے، ہم اربوں ڈالرز صرف سود کی مد میں دے رہے ہیں۔ ریاست مدینہ اور سود ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ ریاست مدینہ میں سود سب سے پہلے ختم کیا گیاتھا۔ تمام مسلمان ممالک میں سود سے چھٹکارے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے اس لیے بالاتفاق ایک متبادل نظام وجود میں لایا جاسکتا ہے جس کو 57 مسلمان ممالک اختیار کرلیں تو دنیا کے مالیاتی سیٹ اپ میں یہ ایک بہت بڑا اپ سیٹ ہوگا جسے سرمایہ داری نظام کے وارث بہ امر مجبوری قبول کرلیں گے
۔وطن عزیز کے تینوں آئین میں بھی نظام معیشت سودسے پاک لکھاگیا لیکن بدقسمتی سے حکومتوں نے اِس پر عمل نہیں کیا اور حالیہ کیس میں بھی بارہا نہ صرف سودی نظام کے خاتمے کو معیشت کے لیے ناقابل عمل قرار دیاگیا بلکہ عدالتی احکامات پر بار بار نظرثانی کی اپیل دائر کی جاتی رہی یوں یہ معاملہ قریباً بیس سال سے عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔ وطن عزیز کی تمام مذہبی جماعتیں اور سکالرز سودی نظام معیشت کے خلاف ایک موقف کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں اوران کا پہلے دن سے یہی موقف چلا آیا ہے کہ قرآن کریم میں سودی نظام پر اصرار اور تسلسل کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ قراردیا گیاہے۔بنا بریں کسی بھی مسلمان حکمران کے لیے انسداد سود کی کوششوں سے بے اعتنائی کا کوئی جواز تھا اور نہ ہی ہے۔ 1962ء کے آئین کی رو سے قومی سطح پر اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک دستوری ادارہ قائم کیا گیا جس میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے مستند علمائے کرام کو نمائندگی دی گئی۔
اس ادارے کے منصبی فرائض میں یہ بات شامل کی گئی کہ یہ ادارہ
ایسی تجاویز مرتب کرے گاجن پر عمل کر کے پاکستان کے عوام کی زندگیوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جاسکے۔چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی رپورٹ میں ربا کو ہر صورت میں حرم قرار دیتے ہوئے اُن تمام صورتوں کی وضاحت کی جو شریعت کے مطابق حرام اور ممنوع ہیں۔متذکرہ فیصلے میں عدالت نے حکومت کو اندرون و بیرونی قرض سود سے پاک نظام کے تحت لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ربا سے پاک نظام زیادہ فائدہ مند ہوگا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ سی پیک کے لیے چین بھی اسلامی بینکاری نظام کا خواہاں ہے۔ عدالت نے بینکوں کے لین دین پر واضح کیا کہ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ملکی قوانین میں جہاں بھی انٹرسٹ کا لفظ آتا ہے اسے ختم کیا جائے۔
شرعی عدالت نے یکم جون 2022 سے انٹرسٹ لینے سے متعلق تمام شقوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ ان قوانین میں ترمیم کی جائے۔ بلاشبہ دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام کے لیے  حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے میں وقت لگے گا۔معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ملک کے اندر تو عدالتی فیصلے کی روشنی میں من و عن عمل کیا جاسکتا ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر سودی نظام سے چھڑانا عملاً ناممکن یا انتہائی مشکل ہے، اِس لیے عین ممکن ہے کہ ریاست کے اندر تو عدالتی احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے مکمل عمل کیا جائے لیکن بیرونی دُنیا کے معاملے پر شاید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ سٹیٹ بینک کے سٹریٹجک پلان کے مطابق 30 فیصد بینکنگ اسلامی نظام پر منتقل ہو چکی ہے۔ اس لیے اسلامی اور سود سے پاک بنکاری نظام کے لیے پانچ سال کا وقت کافی ہے۔
عدالت نے حکومت کی طرف سے اِس معاملے پر نظر ثانی کرنا تو دور بلکہ واضح طور پر ہدایت کی ہے کہ حکومت سود کے خاتمے کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کرے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت اور مالیاتی اداروں کے لیے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد قطعی مشکل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ قریباً دو دہائی سے یہ کیس زیرسماعت اور قوی یقین تھا کہ بالآخر اِس کا فیصلہ یہی ہونا ہے جو، اب سامنے آیا ہے۔ بلاشبہ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ جو ہمارا جو بھی عمل قرآن و سنت کے منافی ہو اُس میں ہمارا نقصان ہے اور سودکالین دین کرنے والوں کے خلاف اللہ، رسول اللہﷺ کا اعلان جنگ ہے، سودی نظام کے خاتمے سے ہم کئی ایسے معاشی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں جس نے ہمارے معاشرے کو بہت بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ایک طرف لوگ سودی نظام کی وجہ سے امیر سے امیر تر اور دوسری طرف اِسی نظام کی وجہ سے غریب سے غریب تر ہورہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جلد ازجلد عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہم سود سے پاک معیشت بن جائیں گے جس میں کسی انسان کو دوسرے انسان کا معاشی استحصال کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button