Column

76سال بعد بھی غریب آدمی کا اہم مسئلہ ’ روٹی‘ ہے !

تحریر : امجد آفتاب
ملک میں الیکشن کا بگل بج چکا ہے تمام سیاسی نمائندے اپنے منشور اور نت نئے وعدوں کیساتھ میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر کارنر میٹنگز کا انعقاد ہو رہا ہے جہاں پر بھاشن دئیے جا رہے ہیں روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنسز جاری ہیں۔
ایک سیاسی جماعت سے دوسری سیاسی جماعت میں جانے اور پارٹیاں بدلنے کا وقت ہو چکا ہے۔ ہر سیاسی نمائندہ اپنا سیاسی مستقبل بہتر بنانے کے چکر میں ہے۔ کسی کو مسلم لیگ ن میں اپنا مستقبل محفوظ نظر آ رہا ہے تو کوئی پیپلز پارٹی کو بہتر سمجھ رہا ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ بھی جاری ہیں، نت نئے اتحاد بھی بن رہے ہیں۔ قومی سطح پر نت نئی سیاسی تبدیلیاں ہو رہی ہیں مگر میں آج ان علاقائی سیاسی نمائندوں پر بات کرنے کرو نگا جو صرف الیکشن کے وقت ووٹ مانگنے کے لیے عوام کو اپنا تھوبڑا دکھاتے ہیں اور جیسے ہی الیکشن ختم ہوتا ہے تو پھر یہ رفو چکر ہو جاتے اور چار پانچ سال تک اپنے عوام میں چکر تک نہیں لگاتے۔ یہ نام نہاد سیاسی نمائندے جو اپنے علاقے کو لوگوں کو چار پانچ سال تک اپنی شکل نہیں دکھاتے وہ آج کل ایکٹو ہو چکے ہیں اور آنیاں جانیاں شروع ہو چکی ہیں۔ کوئی چار سال پہلے فوت ہوئے شخص کی آج تعزیت کر رہا ہے تو کوئی شادی کی تقریب میں سب سے پہلے پہنچ رہا ہے۔ یقین جانیں علاقے کے سیاسی نمائندوں سے بڑا رنگ باز کوئی نہیں ہوتا ۔
ان لوگوں کی تاریخ گواہ ہے کہ عام عوام کے سیاسی نمائندے صرف الیکشن کے وقت نظر آتے ہیں اور جیسے ہی الیکشن کا پراسس مکمل ہوا یہ لوگ رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ کوئی لاہور، اسلام آباد چلا جاتا ہے تو کوئی دوسرے ممالک میں پرسکون زندگی گزارتے ہیں اور عیاشیاں کرتے ہیں۔
یہ سیاسی نمائندے بڑے ماہر اور رنگ باز لوگ ہوتے ہیں یہ الیکشن کے وقت بیچارے عوام کو نت نئے سنہرے خواب دکھاتے ہیں کسی کو نوکری کا جھانسہ دیتے ہیں تو کسی کو سولنگ، نالی پر خوش کرتے ہیں۔ یہ چورن فروش لوگ ہوتے ہیں ان کے پاس بیچنے کو نت نئے چورن ہوتے ہیں۔ یہ غریب عوام ’ عام آدمی‘ کو بیوقوف بنانے میں دیر نہیں کرتے۔ یہ غریب آدمی کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں کہ جب چاہا اور اپنی جاگیر میں چلا گیا۔ گزشتہ چار پانچ سال علاقے والوں پر کیا بیتی ان کے ووٹرز سپورٹرز کا کیا حال رہا یہ ان سب چیزوں سے بے نیاز نظر آتے ہیں ان کو کوئی فکر نہیں رہتی ان کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔
بہرحال میرا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ اب علاقے کو پیرس بنانا اور دیگر مسائل بہت پیچھے رہ چکے ہیں اب غریب کا اہم مسئلہ دو وقت کی روٹی بن چکا ہے۔ اس بلا کی مہنگائی میں ’ عام آدمی‘ کا سب سے بڑا امتحان اپنے بیوی بچوں، اپنے اہل و عیال کو دو وقت کا کھانا میسر کرنا ہے جو کہ بہت مشکل ہو چکا ہے۔ اس مہنگائی نے غریب کی چیخیں ساتویں آسمان پر پہنچا دی ہیں، گھر کا سودا سلف پورا کرنا غریب آدمی کے لیے مشکل ہو چکا ہے۔ انہیں سیاستدانوں اور حکمرانوں کی وجہ سے’ 76 سال بعد بھی غریب آدمی کا اہم مسئلہ روٹی ہے‘ ، دو وقت کا کھانا ہے۔
جبکہ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ جب پینترے باز سیاسی نمائندے کسی غریب کے پاس جاتے ہیں تو ان کو وہاں فل پروٹوکول چاہیے، ان کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ جیسے ہی ہم کسی غریب کے پاس پہنچیں تو ہم پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جائیں ہمارے سامنے پینے کا صاف پانی رکھا جائے، بیشک آپ کے بچے گندا پانی پی پی کر ہلاک کیوں نا ہوں گئے ہوں مگر ان کو نیسلے کا پیور پانی چاہیے۔ اگر ایسا کوئی غریب آدمی یا بستی والے اپنے سیاسی نمائندے کے لیے نہیں کرتے تو یہ نام نہاد لیڈر اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں، اسے اپنی نافرمانی سمجھتے ہیں، بغاوت سمجھتے ہیں جو انہیں ہرگز برداشت نہیں۔ یہ ہے اصلیت ان نام نہاد لیڈروں کی جو خود کو عام عوام کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ ان غریبوں کے ووٹ سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کی۔
میری ان سیاسی نمائندوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ پاکستان میں غریب آدمی کے حالات بہت برے ہیں براہ مہربانی اگر چار پانچ سال بعد ان کو اپنی شکل دکھانے اور ووٹ مانگنے کے لیے جائیں تو لائو لشکر کو ساتھ لے جانے کی کوئی ضرورت نہیں اور ناں ہی یہ امید رکھیں کہ غریب آدمی آپ کے لیے ریڈ کارپٹ بچھائے گا غریب آدمی تو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے اس کو دو وقت کے کھانے کے لیے بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں آپ مزید ان کی پریشانی کا باعث مت بنیں۔ ایسا نا ہو کہ آپ کے پانچ دس منٹ کے پروگرام کے لیے اپنے بچوں کو رات کو بھوکا سلانا پڑے ۔
اللہ پاک نے آپ کو وسیع دیا ہے، آپ جاگیر دار ہیں، سرمایہ دار ہیں، دنیاوی دھن و دولت کی کوئی کمی نہیں، کوشش کریں کہ کسی غریب کے پاس ووٹ مانگنے جائیں تو اس کے لیے ایک آدھ مہینے کا راشن ہی لیکر جائیں تاکہ اس کے بیوی بچے کچھ دن تک پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں اور اگلے پانچ سال تک آپ کے آنے کا انتظار بھی کرتے رہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button