Column

75برس .. اورنگزیب فرازی

اورنگزیب فرازی

 

پاکستان کی عمر 75برس ہوگئی ہے انسان 75 برس میں بوڑھا ہوجاتا ہے پاکستان یا دنیا کا کوئی ملک بھی عمر کے ساتھ جوان ہوتاہے پاکستان بھی جوان ہوگیا ہے اور انشاء اللہ آنے والے وقت میں پورا جوان ہوجائے گا۔ اگر سیاست دانوں سے محفوظ رہا۔ جب پاکستان بنا اس وقت کے حالات حاضر خدمت ہیں1947ء میں پاکستا ن میں کیا کیا تھا مغربی اور مشرقی پاکستان دونوں کی کہانی یہ ہے کہ پاکستان میں کل کاریں آٹھ کے قریب تھیں جو حکومت کے پاس تھیں اورکچھ پرائیویٹ لوگوں کے پاس تھیں وہ بھی ایک درجن سے کم تھیں اور آج پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ گاڑیاں ہیں ایک کروڑ سے زیادہ گاڑیاں اور لوگ خوش ہیں جس آدمی کے پاس لینڈ کروزر ہے اس کو یہ پتا نہیں ہے کہ اس کے خاندان کے کتنے لوگوں نے پاکستان میں آزاد کرنے میں کتنے لوگوں کی قربانی دی تھی یہ جو آج دو دو کروڑ کی گاڑیوںپر پھرتے ہیں اُن کے بزرگوں کا کون ان گاڑیوں کی خریدمیںشاملہے بغیر قربانی کے دنیا میں کچھ حاصل نہیںہوتا آج بڑی بڑی گاڑیوںکے مالک یہ سوچ بھی نہیںسکتے کہ یہ گاڑیاںقربانیوںسے حاصل ہوئی ہیںبڑے بڑے گھر پاکستان کے بڑے بڑے جاگیر دار یا بڑے فارم کے مالک اپنے باپ دادا کی تاریخ سے واقف ہی نہیںہیں جب وہ لوگ پاکستان آئے تھے تو ایک کمرے میں پورے خاندان کے ساتھ رہتے تھے آج عام لوگوں کے محلوںمیں باپ دادا کی قربانیاںملتی ہیں۔ آج کسی غرور اور تکبر کے مرے ہوئے انسان سے اُن کے باپ دادا کی کہانی کو سنیں تو ان کے باپ دادا بیل گاڑی پر سفر کرتے تھے ہندوئوں کے مکانوں میں آکر آباد ہوتے تھے میں نے خود دیکھا ہے ہمارے خاندان کے لوگ پنڈی کے ایک محلے میں آکر آباد ہوئے تھے جب میں پانچ برس کا تھا تو ہم ایک ہندو کے مکان میں رہتے تھے اور ایک کمرے میں سوتے تھے گھر میں نہ بجلی تھی نہ پانی تھا پانی کا ایک کنواں تھا سارا محلہ اُسی سے پانی پیتا تھا اور بجلی تو پوری پاکستان میں نہیںتھی کراچی میں کچھ علاقوں میں بجلی تھی لاہور میں گورنر ہائوس وغیرہ میں بجلی تھی وہ بھی پتا نہیںکس طرح تھی اور سب اندھیرا تھا ۔آج پاکستان میں بجلی ہی بجلی ہے اس بجلی میں ہمارے بزرگوں کا خون ہے کسی گھر میں لیٹرین نہیں تھی نہ پانی کے پائپ تھے عام لوگ کھیتوں میں رفاع حاجت کے لئے جایا کرتے تھے آج ایک کنال کے گھر میں آٹھ لیٹرینیں ہیں ہر کمرے کے ساتھ باتھ روم ہے عام گھروں میں سینکڑوں لائٹیں ہوتی ہیں کسی نے سوچا ہے کہ بغیر باتھ روموں کے بھی گھروں میں ہمارے والدین رہا کرتے تھے کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ میںکیا زمانہ تھا کیا وقت تھا آج اگر ایک گھنٹہ پانی بند ہو جائے تو لوگ شور ڈال دیتے ہیں ہاں پانی نہیں ہے بجلی چلی جائے تو لوگ سمجھتے ہیں پاکستان میں تو ہے ہی کچھ نہیں آج کے لوگوں نے اس ملک کے لئے کچھ نہیں کیا صرف باتیں کرتے ہیں ۔
مجھے یاد ہے ہم ایبٹ آباد میں رتے تھے اور یہ 1953ء کے قریب کی بات ہے ہم سب بچے چشموں سے پانی بھر کر لایا کرتے تھے یا پھرکٹھے تھے جن سے صاف پانی گزرا کرتا تھا وہاں سے پانی لایا کرتے تھے ۔ رات کو مٹی کے تیل سے آگ جلا کر روشنی کی جاتی تھی گھروں میں سرسوں کے تیل کے دیے ہو اکرتے تھے جن سے روشنی کی جاتی تھی بس باقی سب اندھیرا ہوا کرتا تھا آج ہر طرف روشنی ہے یہ روشنی ہمارے بزرگوںکے خون سے بنی ہے ہم نے کچھ نہیں کیا سوائے تنقید کے قوموںکو اپنا ماضی یاد رکھنا چاہیئے ورنہ ترقی نہیں ہوگی کوئی چینی کوئی گھی کوئی دودھ کوئی اعلیٰ قسم کی چیزیں نہیں ہو اکرتی تھیں صرف گُڑ ہوا کرتا تھا اس سے سب چائے وغیرہ بنائی جاتی تھی چینی بعد میں آئی تھی وہ بھی دیسی چینی جو شکر کی شکل کی تھی ورنہ شکر ہی ہوا کرتی تھی اکثر لوگ گھروں میںخود چکی پر بنایا کرتے تھے 1955کے بعد چکیاں بن گئی تھیں آج کہتے ہیں آٹا نہیں ملتا جتنا رزق آج ہم ضائع کرتے ہیں اتنے اس وقت کل رزق نہیں ہوا کرتے تھے ۔ آج جو لوگ کہتے ہیں روٹی پوری نہیں ہوتی آج کے رزق میں ہمارے بزرگوں کا خون ہے سالن کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا تھا چٹنی سے اکثر ہ روٹی کھایا کرتے تھے یا ہماری والدہ ایک پائو گوشت میں دو کلو دال ڈال کر پکایاکرتی تھی اور ہم سب بچے ایک پائو گوشت کا سالن کھاتے تھے ۔
آج چار چار سالن ہوتے ہیں لوگ کہتے ہیںسالن کم ہے اچھا نہیں ہے آج کے سالنوں میں ہمارے بزرگوں کی قربانیاں شامل نہیں آج ہم کچرے کی ٹوکری میںجتنا سالن ضائع کرتے ہیں اس وقت اتنا سالن بادشاہوں کو نہیں ملتا تھا اکثرلوگ پیدل سفر کرتے تھے یا گدھے پر سفر کرتے تھے گھوڑا تو امیر لوگوںکے پاس ہوتا تھا اور گھوڑے والا اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا ہر وقت غرور میںرہتا تھا آج ہر بڑا ور امیر لوگوں کے گھروں میںچار چارگاڑیاں ہیںان گاڑیوں میں ہمارے بزرگوں کی قربانیاںشامل ہیںکوئی سیورج سسٹم نہیں تھامجھے یاد ہے ایک آبا دچوک میں ایک پراپرٹی ڈیلر نے لکھا ہوا تھا کہ ایک نیا گھر کرایہ کے لئے خالی ہے اس میں سیوریج سسٹم ہے لوگ جمع ہو کر ڈیلرسے پوچھتے تھے یہ سیوریج سسٹم کیا ہے آج کا سیوریج ان بزرگوںکی قربانیوںکا صلہ ہے جہاںپاکستانیوں کو اللہ نے توفیق عطا کی ہوہاں ان میں ناشکری بھی بہت زیادہ ہوتی ہے کسی کو بھوکارہنے کے بعد روٹی ملے تو اس کو قدر ہوگی اگر ہمارے سیاست دان انسان کے بچے ہوتے تو ہم بھی آج ترقی یافتہ ہوتے ہوئے بھی انہوںنے کالا باغ ڈیم تعمیر ہونے دیا نہ آج سی پیک میں کام ہونے دے رہے ہیں ان کو صرف اقتدار کی ضرورت ہوتی ہے سیاست دانوںکی وجہ سے ہم دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں سب ہماری طرح تھے دوبئی 75 برس پہلے گدھوں گھوڑوں اور اونٹوں کا ملک تھا مگر وہاں سیاست نہیں تھے اسی طرح اچھی جمہوریت تھی وہاں بھی ترقی ہوتی ہے مگر آج جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ بھی کم نہیں ہے آج ہماری نئی نسل بہت محنت کررہی ہے مگر اس کو ماضی یاد نہیں ہے امریکہ جیسی ترقی کرنی چاہتے ہو تو دیانت ہی ترقی کی چابی ہے ورنہ 75برسوں کے بعد ترقی سے دور کیوں ہوتے جارہے ہو۔ اس ملک کو اپنا ذاتی گھر سمجھو تب ترقی ہوگی ابھی ماضی کی بہت سے باتیںہیں مگرکالم پورا ہوگیاہے پھر کبھی تحریر کروں گا
ماضی ترقی کا مثل راہ ہوتا ہے
خالی باتیں کرنے سے کیا ہوتاہے
جو قومیں سچی ایماندار ہوتی ہیں
ان کے ساتھ پھر خدا ہوتا ہے
ہم نے ماضی سے سبق حاصل کرنا ہے بھارت سے خالی ہاتھ آئے تھے جو خاندان بیس لوگوں کو ساتھ لیکر چلا تھا وہ جب پاکستان آئے تھے تو تین چار باقی رہ گئے تھے ا س وطن سے محبت کرو اپنی آزادی کو سمجھنے والے کبھی اچھی قوم نہیں بنتے ہمارے پاس ابھی وقت ہے اور وقت کبھی کم نہیں ہوتا تقدیر سچ اور دیانت میںہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button