Column

5اگست اور مقبوضہ کشمیر کی تازہ صورتحال ۔۔ محمد جاوید قصوری

محمد جاوید قصوری

 

نریندر مودی 2014 میں بھارت کے وزیراعظم منتخب ہوئے بعد ازاں مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات کے بعد بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی سے اتحاد کرکے مقبوضہ ریاست میں حکومت بنائی لیکن اختلافات کے باعث 2018 میں یہ اتحاد منطقی انجام کو پہنچا۔جون 2018 کو بی جے پی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں گورنر راج نافذ کیا جس کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر کے آئین کے آرٹیکل 92 میں وضاحت کی گئی تھی کہ ریاست میں کوئی آئینی ستون ٹھیک کام نہیں کررہا ہو تو گورنر راج نافذ ہوگا اور 2018 میں اسی کا سہارا لیا گیا لیکن دسمبر 2018 میں گورنر راج کو صدارتی راج سے تبدیل کیا گیا جو تاحال جاری ہے۔ بھارت میں 2019 کے عام انتخابات کے دوران نریندر مودی اور بی جے پی نے اپنے منشور میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ وہ کامیابی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے قانون سازی کرکے اس کو بھارت کا باقاعدہ حصہ بنائے گی جبکہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کردیا جائے گا۔بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کیا اور لاک ڈاون کے دوران موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی اور پارلیمنٹ سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کو تقسیم کرنے کا فارمولا پیش کیا اور قرار داد اکثریت کی بنیاد پر منظور کرلی گئی۔بھارتی صدر نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے تاہم اس کا نفاذ گزشتہ سال ہی اکتوبر میں کردیا گیا۔
05اگست 2019 کے بعد سے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس بھارتی فوج کے دس لاکھ اہلکار کشمیریوں کو قتل عام اور ظلم و بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بھارتی سفاک قابض فوج ہر چیز کو اپنے فوجی بوٹوں تلے روند رہی ہے اور کشمیری عوام کو ان کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنارہی ہے۔سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق انسانی حقوق کے عالمی دن پر کشمیر میڈیا سروس کے ریسرچ سیکشن سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارت نے 1989 سے لے کر 10 دسمبر 2019 تک مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں 95 ہزار 4 سو 71 معصوم کشمیریوں کو قتل کیا جن میں 7 ہزار ایک سو 35 کشمیری دورانِ حراست شہید ہوئے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ بھارتی
فورسز کی جانب سے قتل کے مذکورہ واقعات کے نتیجے میں 22 ہزار 9 سو 10 خواتین بیوہ اور ایک لاکھ 7 ہزار 7 سو 80 بچے یتیم ہوئے جبکہ اسی عرصے میں بھارتی فورسز نے 11 ہزار ایک سو 75 خواتین کی بے حرمتی اور ایک لاکھ 94 ہزار 4 سو 51 املاک کو تباہ کیا۔ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ مودی حکومت اپنے شیطانی ہندوتوا نظریے کو مسلط کرنے کے لیے کشمیر کو قبرستان اور بنجر زمین میں تبدیل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ بھارتی قابض افواج کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے مقبوضہ علاقے میں منظم نسل کشی، وحشیانہ ظلم وتشدد، اجتماعی گرفتاریوں، املاک کی تباہی اور خواتین کی عصمت دری جیسے گھنائونے جرائم میں ملوث ہے ۔ 5 اگست کے بعد سے ہندوتوا طاقتوں نے مقبوضہ علاقے میں خواتین اور بچوں سمیت چھ سو سے زائد کشمیریوں کو شہید کردیا ہے جبکہ حریت رہنمائوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں، سماجی کارکنوں، خواتین اور بچوں سمیت بیس ہزار سے زائد افراد کو گرفتار اوربھارتی فوجیوں نے گولہ باری اور کیمیائی مودا کے ذریعے 15سو سے زائد عمارتوں اور مکانوںکو تباہ کردیا ہے۔ ان جرائم سے مقبوضہ وادی میں ہندوتوا دہشت گردی کی شدت ظاہر ہوئی ہے۔ ہندوتوا طاقتوں نے متنازعہ علاقے میں انتظامی تبدیلیاں لا کر نئی آبادکاری کا منصوبہ بھی شروع کر رکھاہےجس کا آغاز نئے ڈومیسائل قانون کے نفاذ کے ذریعے کیاگیا تھا۔ نئے ڈومیسائل قانون کے نفاذ کے بعد بھارت نے مقبوضہ علاقے میں 20لاکھ بھارتی شہریوں کی آباد کاری کی راہ ہموار کرکے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ مختلف قوانین کے تحت کشمیریوں کو ان کی آبائی زمین سے بے دخلی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔اراضی سے متعلق قوانین میں ترمیم، چھائونیوں کیلئے بھارتی فوج کو وسیع اراضی کی الاٹمنٹ، فوجیوں اور پنڈتوںکی کالونیاں اورنام نہاد حلقہ بندیاں کشمیر میں ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کرنے کیلئے فسطائی ہندوتوا ذہنیت کی چند مثالیں ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button