Column

22کروڑ عوام کا مقدمہ .. یاور عباس

یاور عباس

وطن عزیز اس وقت شدید سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے، مہنگائی اور ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے، سیاسی جماعتیں مذاکرات کی بجائے تصادم کی جانب بڑھ چکی ہیں، حکومت اور اپوزیشن کی اس جنگ میں اداروں پر نہ صرف تنقید کی جارہی ہے بلکہ ادارے تقسیم ہوتے نظر آرہے ہیں ، کچھ اداروں پر حکومت کی بے جا طرف داری کا الزام ہے تو کچھ کو اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کا سہولت کار گردانا جارہا ہے۔ کھینچا تانی کے اس ماحول میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان اور پاکستانی عوام کا ہورہا ہے۔ اقتدار کی رسہ کشی میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جتنے سرکاری یا پھر غیر سرکاری وسائل استعمال ہورہے اس سے ملک مزید خسارے میں جارہا ہے، پاکستان کے 95فیصد عوام کا تعلق مڈل کلاس یا پھر غریب لوگوں سے ہے، غربت کی لکیر کے پاس یا پھر اس سے نیچے زندگی گزارنے والے مزید کسی نقصان کے شاید متحمل نہ ہوسکیں۔ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں، حکمرانوں کو تو شاید مہنگائی کا فرق نہ پڑتا ہو، مگر جس کے گھرشام کو کھانا نہ پکے، بچے بیمار ہوں اور لوگ ان کے لیے دوائی نہ خرید سکیں، جو مزدور اپنے علاج کی سکت نہ رکھتا ہو کبھی اس سے پوچھیں کہ یہ ملک کس مقصد کے لیے بنا تھا۔ آئین پاکستان کے مطابق طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے، قائداعظم محمد علی جناحؒ اسے ایک ایسا پاکستان بنانا چاہتے تھے جہاں عدل، انصاف، اخوت، رواداری کی مثالیں قائم ہوسکیں، تحریک پاکستان کے رہنما تو پاکستان اس لیے بنانا چاہتے تھے کہ یہ ملک اسلام کی تجربہ گاہ بن سکے اور ہم دنیا کو بتا سکیں کہ یہ ایک اسلامی معاشرہ ہے، جہاں امن، خوشحالی اور ترقی کا عملی نمونہ ہو، مگر ہم قائداعظمؒ اور ان کے ساتھیوں سے شرمندہ ہیں کہ پاکستان جن لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا، انہوںنے یہاں لوگوں کو انگریزوں کی غلامی سے نکال کر جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور چند خاندانوں پر مشتمل حکمرانوں کا غلام بنا دیا، آئی ایم ایف سے قرضے حکمرانوں نے لیے مگر ملک پر ٹھیک سے خرچ ہوتے تو شاید خوشحالی کا دور دورہ ہوتا مگر جب حکمران خزانے خالی کر کے بیرون ملک جائیدادیں اور کاروبار بنائیں گے تو پھر غریب بچہ کبھی خوشحال نہیں ہوگا، ملک قرضوں کی دلدل میں دھنس گیا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ ہم خوشحالی کی تلاش میں یہاں تک پہنچ گئے کہ لوگ آٹے کی لائنوں میں لگ کر زندگی کی بازیاں ہارنے پر مجبور ہوگئے ۔ پاکستان کے ریاستی اداروں اور سیاستدانوں کی بنیادی ذمہ داری ملک میں امن و امان ، تعلیم ، صحت ، ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنا ہوتا ہے مگر لوگوں کے حالات بتا رہے ہیں کہ یہاں بنیادی مقصد کی خاطر کتنا کام ہوا، 22کروڑ پاکستانیوں کے نام پر حکومتیں کرنے والوں نی انہیں خوشحالی کے نام پر مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری کا تحفہ دیا ، اشرافیہ اور حکمرانوں کے علاوہ پاکستان میں اگر کوئی چند گھرانے خوشحال ہوئے ہیں تو وہ اوورسیز پاکستانیوں کی وجہ سے ہوئے ہیں جو بیرون ملک محنت مزدوری کر کے پیسے اپنے خاندانوں کو بھیجتے ہیں وگرنہ اگر صرف حکومتوں پر انحصار کیا جاتا تو شاید یہاں کے حالات تو اس سے بھی ابتر ہوجاتے ۔ آج کل حکومت ہو یا اپوزیشن ہر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ 22کروڑ پاکستانی اس کے ساتھ ہیں ، مخالفین کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ 22کروڑ عوام نے ان کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے مگر ستم ظریفی کی بات ہے کہ کبھی کسی نے 22کروڑ عوام سے پوچھا ہی نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں، 22کروڑ لوگوں کی ضرورتوں ،مجبوریوں کو الیکشن میں خرید کر سرمایہ دار ان کے نمائندے منتخب ہوجاتے ہیں اور پھر پانچ سال ان کی شکلیں عوام کو دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ الیکشن کمیشن نے کبھی نوٹس نہیں لیا کہ انتخابات میں پانی کی طرح پیسے بہا کر ووٹ کیوں لیے جاتے ہیں، حالانکہ قانون کے مطابق محض چند لاکھ روپے ایک ایم این اے کے الیکشن کے لیے خرچ کرنے کی اجازت ہوتی ہے مگر یہاں کیا ہوتا ہے سب کو پتہ ہے صرف کارروائی نہیں ہوتی ، یہاں تو اسمبلی ممبران کی کروڑوں روپے میں فروخت کی کہانیاں منظر عام پر آچکی ہے ، ہارس ٹریڈنگ، سینیٹ الیکشن ہوں یا پھر عدم اعتماد سب پیسے کا کھیل بن چکا ہے، غریب آدمی بیچارہ تو ان ایوانوں کے سامنے سے گزر بھی نہیں سکتا جسے عوام کی نمائندگی کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ 22کروڑ غریب عوام پر حکمرانی کرنے والے کتنے لوگ ہیں جن کے اپنے گھر نہیں ہیں ، جن کے پاس کاروبار نہیں ، جن کے بینک اکائونٹس میں محض چند روپے پڑے ہوں ، جو اپنے گھر کا سامان ، راشن خود خرید کر لاتے ہوں ، جو فیکٹریوں کے مالک ہونے کی بجائے کبھی مزدوری کرتے رہے ہوں ، اگر ایسے لوگ نہیں ملیں گے تو پھر حکمران غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قانون سازی کرینگے نہ ہی عوامی فلاح کے منصوبے بنائیں گے ۔ بلکہ وہ اپنے کاروبار کو تحفظ فراہم کریںگے۔ پاکستان کے 22کروڑ عوام آج ارباب اختیار سے پوچھتے ہیں کہ ٹیکس دینے والے کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں اور ٹیکس وصول کرنے والے شاہانہ زندگی، محنت مزدوری کرنے والے بجلی ، گیس کے بل جمع کرواتے ہیں اور ان پر بے تحاشا ٹیکس بھی دیتے ہیں مگر حکومتیں کرنے والے ادارے اور سیاستدان مفت بجلی ، گیس اور پیٹرول استعمال کرتے ہیں۔ اگر مزدور دیہاڑی پر جانے کے لیے یا پھر سرکاری ملازم ڈیوٹی پر جانے کے لیے موٹر سائیکل میں پیٹرول خود ڈلوا سکتا ہے تو لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے افسر سرکاری گاڑی ہونے کے باوجود پیٹرول سرکاری کیوں استعمال کرتے ہیں ۔ غریب مزدور یا چھوٹا سرکاری ملازم ذاتی گھر نہ ہونے پر کرائے کے مکان میں رہ سکتا ہے مگر حکومتیں کرنے والوں کی رہائش گاہیں شاہانہ طرز عمل کی کیوں ہیں۔ 22کروڑ لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم ، صحت ، انصاف کی سہولتیں سب کے لیے ایک جیسی کیوں نہیں ہے ، امیر و غریب کا بچہ ایک ہی سکول میں کیوں نہیں پڑھتا ، امیر و غریب علاج کے لیے ایک ہی ہسپتال میں کیوں نہیں جاتے۔ غریب چوری کرے تو جیلوں میں ذلیل و خوار ہو اور قومی خزانے کو لوٹنے والے عدالتوں سے بھی ریلیف حاصل کریں اور سزا کے باوجود بیرون ملک چلے جائیں یا پھر حکومتیں کریں۔ دہرا معیار زندگی ہی ہماری تباہی اور زوال کا سبب ہے۔ خدارا 22کروڑ پاکستانیوں کو ان کے بنیادی حقوق دیں، انہیں حق حکمرانی دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button