Ahmad NaveedColumn

1947 .. احمد نوید ..

احمد نوید

 

پاکستان کا قیام کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ اس ملک کے قیام اور سر زمین کو حاصل کرنے کے لیے قربانیاں غریبوں نے دیں اور مزے اشرافیہ نے اٹھائے۔پاکستان کی تخلیق کی تاریخ المناک واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ لاکھوں ہلاکتیں ہوئیں، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ ہزاروں بیٹیوں کی عصمت دری، ایک پہاڑ ٹوٹا ،ایک قیامت برپا ہوئی ، تب یہ خطہ ہمارا مقدر بنا۔
انسانی تاریخ کے اس المناک واقعے کا ددر کتنوں نے محسوس کیا، یہ قیامت کتنوں نے دیکھی ، اس تکلیف کا احساس کتنوں کوہوا۔ آج کی نوجوان نسل کو غالباً اندازہ ہی نہیں ۔ آج75 سال سے اوپر جتنے بھی پاکستانی ہیں اُن کے سینوں میں تقسیم کی وہ داستانیں موجود ہیں وہ اس قیامت سے گزرے ہیں، انہوں نے یہ درد سہا ، دیکھا اور جھیلاہے ۔ ہر سال اگست کا مہینہ ’’1947‘‘ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا ہے ۔ پاکستانی قوم اگست کے مہینے اور خاص طور پر 14اگست کے دن کو بہت جوش و جذبے سے مناتے ہیں ، لیکن اُس وقت اس چیز کا خیال، سوچ اور ادراک ازحد ضروری ہے کہ اگر پاکستان نہ بنا ہوتا تو آج ہم اُس بھارت میں رہ رہے ہوتے جہاں تمام اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ نا انصافیوں اور ظلم و زیادتیوں کی انتہا کر دی گئی ہے ۔ آج ہندوستانی مسلمانوں سے قدم قدم پر اُن کی وفاداری پر سوال کیا جاتا ہے۔ سوال تو ہم سے بھی بنتا ہے کہ کیا ہم نے اس آزادی کی قدر کی؟ ہم آزاد فضائوں میں جی رہے ہیں ۔ ہمیں یہ خوف اور ڈر نہیں کہ کہیں سے انتہا پسند ہندوئوں کا ہجوم ہمیں آکر گھیر لے گا۔ ہمیں یہ ڈر اور خوف بھی نہیں کہ کہیں سے انتہا پسند ہندو آکر ہماری عبادت گاہوںپر حملہ آور ہو جائیں گے ۔ ہماری بیٹیوں کو یہ ڈراور خوف نہیں کہ اُنہیں تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے سے روکا جائے گا۔
الحمداللہ ہم اقلیت ہونے کے اس تصور سے آزاد ہیں ، جسے آج ہندوستانی مسلمان اپنے ذہن سے نکال نہیں سکتے۔ مگر دکھ اس بات کا بھی ہے کہ ملک حاصل کرنے کے بعد جو کام ہمارے ذمے تھے یا جو اُمید یں قائداعظم کو ہم سے تھیں ۔ ہم نے نہ صرف اُنہیں فراموش کر دیا بلکہ اُنہیں اس ملک کی سرحد سے باہر پھینک آئے ۔ یہاں سے آغاز ہوا پسند نہ پسند ، ذاتی خواہشات، ذاتی مفادات اور اپنے عزیز واقارب کو نوازنے کی سیاست کا۔ مہاجرین جو ہندوستان سے پاکستان پہنچے، امراء تھے تو بنگلوں
اور حویلیوں میں ٹھہرائے گئے ، جو غریب تھے وہ کیمپوں اور فٹ پاتھوں پر بٹھائے گئے ، کرپشن کاآغاز تو پاکستان کے قیام کے دوسرے روز سے ہی ہو چکا تھا۔
کرپشن یا بدعنوانی صرف ایک بلا نہیں تھی جو اس نئے ملک پر ٹوٹی۔ لمحہ فکریہ یہ تھا کہ قائداعظم کی رحلت کے بعد پاکستان کی تعلیم و ترقی کے لیے کوئی منصوبہ تھا نہ روڈ میپ ۔ صرف خیالی ، کتابی ، خوابی اور تصوراتی باتیں ۔ ہمیں یہ کرنا چاہیے ، ہمیں وہ کرنا چاہیے ، نہ یہ ہوا نہ وہ ہوا ۔ تاہم وقت ضرور برباد ہوا۔
1947کے بعد ملک کی ہم ترین ضرورت تعلیم تھی۔ ذرا سوچئے ترقی کا وہ کونسا راستہ ہے جو تعلیم کے بغیر طے کیا جاسکتا ہے۔ طب، معاشی، مالی ٹیکنالوجی اور خلا ہر چیز اور ہر شعبے کو تعلیم سے فتح کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم کو نظر انداز کر کے ہم نے پاکستان کے پائوں کاٹ دئیے۔ آج پاکستان میں خواندگی سو فیصد ہوتی تو ملک کسی ایجنڈے اور پالیسی کے تحت آگے بڑھ رہا ہوتا۔ آج ہم اُس مرغی کی طرح ہیں جو سر کے بغیر دوڑے جا رہی ہے ۔ وہ کب گرے گی، کب اُٹھے گی ، کس چیز سے ٹکرائے گی ، کس چیز کو پٹخے گی ۔ اُس کی کوئی سمت ، راہ یا منزل نہیں ۔ 1947میں ہم نے آزادی تو حاصل کی لیکن ناخواندگی سے آزادی حاصل کرنے میں ناکام
رہے۔ ہم نے جہالت کی زنجیریں نہیں توڑ یں، ہم اندھیروں اور تاریکیوں سے تعلیم ، علم اور بصیرت کے سورج طلوع کرنے میں ناکام رہے ۔ اس قوم کو تعلیم نے توانا کرنا تھا ۔ تعلیم نے اس قوم کی بنیادوں کو مضبوط کرنا تھا۔ تحمل ، رواداری ، اخوت، بھائی چارہ ، برادشت ، صبر مثبت سوچ، ہر پھول تعلیم کے درخت پر اُگتا ہے اور اس کی گھنی چھائوں میں راحت ، سکون اور اطمینان ملتا ہے ۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر یورپی ممالک میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے تھے ۔ اُن میں یہودیوں کی بھی بہت بڑی تعداد تھی ۔ قطع نظر اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے،اگرہم یہودیوں کی محنت ، مستقل مزاجی اور تعلیمی پالیسیوں کو دیکھیں ، تواُن کی کامیابیوں میں اُن کی تعلیمی حکمت عملی سر فہرست رہی ۔ یہودیوں نے تعلیم کے حوالے سے ایک مشکل وقت ایسا بھی دیکھا تھا ، جب جرمن حکومت نے ہٹلر کے کہنے پر سکولوں اور یونیورسٹیوں میں یہودی طلبہ کے داخلے کی شرح محدود کرنے کے لیے قانون جاری کیا تھا۔دوسری عالمی جنگ کے بعد مئی 1945تک جرمنوں اور اُن کے ساتھیوں نے نسل کشی کے ایک منظم منصوبے ہولو کاسٹ کے تحت ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کر دیا تھا۔ جب اتحادی فوجیں حراستی کیمپوں میں داخل ہوئیں تواُنہیں لاشوں ، ہڈیوں اور انسانی راکھ کے دھیر ملے ، بظاہر لگ رہا تھا کہ زندہ بچ جانے والے یہودیوں کی زندگیوں کی تعمیر نو کا امکان مشکل ہے ۔
عالمی جنگ کے خاتمے کے قریباً دو سال بعد 1947میں پاکستان کا قیام وجود میں آیا تھا۔ ہماری ہجرت اور تباہی کے مناظر یورپی ممالک میں یہودیوں کی ہجرت اور تباہی سے زیادہ المناک نہیں تھے ۔ یہودیوں نے خود کو یکجا کیا، اپنی ترقی ، استحکام، خوشحالی کے لیے جو روڈ میپ بنایا ، اُس میں پہلا سنگ میل تعلیم رکھا ، جبکہ ہماری ترقی ، استحکام ، خوشحالی کا کوئی پلان موجود تھا نہ روڈ میپ ۔ پھر تعلیم جیسا اہم ترین سنگ میل عبور کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
19ویں صدی میں تعلیم دنیا بھر کے ممالک کیلئے آسان نہیں تھی ۔ دنیا ابھی ترقی پذیر تھی اور بہت سے امیر بھی نہیں ہوئے تھے ۔ تاہم جن ممالک نے تعلیم کو نہایت سنجیدگی سے لیا ، وہ ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن ہوگئے ایسے ملکوں کے نام گننے کی ضرورت نہیں ، البتہ یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان کا نام اُن ممالک میں شامل نہیں تھا۔
یہودیوں نے 1945ایک بار دیکھا تھا ۔ جاپان نے ہیروشیما اور ناگا ساکی بھی ایک بار دیکھا تھا۔ ایسی اور بھی قومیں موجود ہیں جنہوں نے ایک حادثے سے زندگی بھر کا سبق لیا۔ صد افسوس کہ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو 1947کے بعد75 سال گزرنے کے باوجود آج بھی 1947جیسے سانحوں سے دوچار ہیں۔ ہماری قسمت میں 1947کس نے لکھااور ہمیں ہر روز 1947کیوں دیکھنا پڑتا ہے، سوچنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button