ColumnFayyaz Malik

180برس کی سندھ پولیس

تحریر : فیاض ملک
سندھ پر تالپور خاندان کی 1784سے 1843 تک تقریبا 60سال حکومت رہی اور انہوں نے اپنے دوراقتدار میں سندھ کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے کراچی سمیت مختلف شہروں میں باقاعدہ طور پر کاردار، سپاہی اور چوکیدار مقرر کئے گئے تھے، جن میں کاردار کا کام انکی نگرانی کرنا تھا، سپاہی کے فرائض میں ہر قسم کے جرائم کی روک تھام اور ان کا سدباب کرنا تھا یہ چوری، ڈکیتی، قتل، اسمگلنگ، کے مجرموں کو گرفتار کرکے کاردار اور قاضی کی عدالتوں میں پیش کرتے تھے جہان ان پر مقدمات چلائے جاتے تھے اسی طرح چوکیدار شہر کی فصیل کھارادر اور میٹھادر کے دروازوں پر پہرہ دیتے تھے اور رات کو اندرون شہر گشت کیا کرتے تھے چوکیدار تلواروں سے مسلح ہوتے تھے اور ہر ماہ انھیں سرکاری خزانے سے تنخواہ ادا کی جاتی تھی اس زمانے میں نجی طور پر بھی کچھ لوگ جاسوسی کا کام کرتے تھے انھیں عرف عام میں کھوجی کہا جاتا تھا یہ لوگ چوری کا سراغ لگانے اور اور مجر موں کو پکڑنے میں مہارت رکھتے تھے، انگریزوں نے کراچی پر مکمل قبضے کے بعد تالپور دور کے گورنرز کو ہٹاکر فوری طور پر برطانوی فوج کے جنرل چارلس نیپئیرکو سندھ میں گورنر نامزد کیا تھا اور انھیں کراچی کا انتظامی کنٹرول سونپا تھا۔ چارلس نیپئیرچار سال تک سندھ کے گورنر رہا 25اگست 1847کو اس کے مستعفی ہونے کے بعد سندھ کی ایک علیحدہ صوبہ کی حیثیت کرکے اسے بمبئی میں ضم کر دیا گیا تھا، اس کے بعد سندھ کا جو بھی سربراہ مقرر ہوا وہ گورنر کے بجائے کمشنر سندھ کہلایا، چارلس نیپئیر نے اپنے دور اقتدار میں شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے 1847میں یورپی طرز پر ازسر نو پولیس کا محکمہ قائم کیا اور لفظ پولیس کو متعارف کرایا تھا، جو Politeنرم خو، Obedientفرما بردار،Loyalوفادار، intelligentذہین، Courageousباہمت، Efficientمستعد کا مخفف ہے، سندھ پولیس پاکستان کی سب پرانی
جبکہ برصغیر کی یہ چوتھی فورس تھی، سب سے پہلے پولیس بنگال ، مدراس اور پھر بمبئے میں بنی جس کے بعد اس کا قیام سندھ میں ہوا، یہ فورس باقی تین فورسز سے اس لحاظ سے منفرد تھی کہ اسکی کمانڈ نان پولیس آفیسرز کی بجائے اپنے آفیسرز کرتے تھے اور وہ ریونیو آفیسرز کو جواب دہ نہیں تھے۔ اس لحاظ سے یہ ایک آزاد اور خودمختار ادارہ بنا اسی وجہ سے اسے ہندوستان کی پہلی ماڈرن پولیس فورس کا نام دیا گیا۔ سندھ پولیس کو رائل آئرش کانسٹیبلری کی طرز پر اس ریجن میں پہلی ماڈرن پولیس فورس کہا جاتا تھا۔ انگریزوں نے اس ادارے کی باقاعدہ تنظیم و تربیت کا انتظام کیا تھا، برطانوی راج کے دوران سندھ پولیس میں فوج سے افسران تعینات کئے جاتے تھے، مظاہروں اور فسادات پر قابو پانے کیلئے ڈیڈلی سکواڈ کا استعمال کیا جاتا تھا۔ سندھ پولیس کا پہلا سربراہ کیپٹن برائون تھا جو کیپٹن آف پولیس کہلاتا تھا اس کے ماتحت تین لیفٹنٹ آف پولیس تھے جو سندھ کے دیگر اضلاع میں تعینات کئے گئے، جنگلوں کیلئے ریورن پولیس فورس بنائی جس کو1947میں ختم کر دیا گیا تھا۔ برطانوی دور میں پولیس کا ہیڈ کوارٹر میشام لی روڈ موجودہ گارڈن ہیڈ کوارٹر کراچی میں بنایا گیا تھا جو اب تک وہی قائم ہے، 1847میں سندھ پولیس کے کل عملے کی تعداد 2210افراد پر مشتمل تھی، یہاں تک کہ سندھ پولیس کے پاس برصغیر پاک و ہند کا سب سے بڑا گھڑ سواروں کا دستہ بھی رہا جس کی تعداد ایک ہزار
تک تھی جن کے لیے سندھ پولیس نے کثیر سرمایہ علیحدہ سے رکھا ہوا تھا۔ چارلس نیپئیر نے اونٹ سوار دستہ بھی ترتیب دیا تھا جو شاہراہوں پر تجارتی قافلوں کی نگرانی کیا کرتا تھا جبکہ دریائے سندھ میں پولیس کے کشتی دستے بھی گشت کرکے تجارتی جہازوں کی حفاظت کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے دوران انڈین پولیس سروس کے سینئر آفیسر جے جے رائے انسپکٹر جنرل آف پولیس تعینات تھے جنھوں نے 28فروری 1947تک خدمات انجام دی ان کے بعد اے ڈبلیو پرائڈ کو انسپکٹر جنرل پولیس تعینات کیا گیا جو قیام پاکستان کے وقت آئی جی پولیس تعینات تھے۔ اے ڈبلیو پرائڈ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نو تشکیل مملکت پاکستان کے پہلے انسپکٹر جنرل آف پولیس ہیں۔ اے ڈبلیو پرائڈ 13جولائی 1951تک اس منصب پر فائز رہے ان کے بعد پاکستان پولیس سروس سے تعلق رکھنے والے سینئر پولیس آفیسر محمد شریف خان کو تعینات کیا گیا۔ سندھ پولیس کی جانب سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد انڈین پولیس سے تقریبا ایک درجن سے زائد سینئر پولیس افسران پاکستان چلے آئے تھے اور یہاں پاکستان پولیس سروس میں شامل ہوگئے تھے۔ 1955میں محکمہ پولیس کو انتظامی بنیادوں پر ایسٹ پاکستان اور ویسٹ پاکستان دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ چونکہ سندھ اور کراچی ویسٹ پاکستان کا حصہ تھا لہذا پاکستان پولیس سروس سے تعلق رکھنے والے سینئر پولیس آفیسر محمد انور علی انسپکٹر جنرل ویسٹ پاکستان تعینات کئے گئے ان کے بعد اے بی اعوان، محمد شریف خان، شاہ نظیر عالم، ایس ڈی قریشی، میان بشیر احمد، میاں انور آفریدی آئی جی ویسٹ پاکستان کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے تاہم جولائی 1970میں پولیس کے محکمے کو مزید چار
صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا ، انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والوں میں پاکستان پولیس سروس کے خواجہ مسرور حسن ، محمد یوسف اورکزئی، چودھری فضل حق، میان محمد اسلم حیات، حبیب الرحمان خان، ارباب ہدایت اللہ، دلشاد نجم الدین، بشیر احمد خان، سید سعادت علی شاہ، سید سلمان خالق، محمد نواز ملک، محمد عباس خان، خاور زمان، محسن منظور، جی معین الدین، قمر عالم، افضل علی شکری، محمد سعید خان، سید محب اسد، اسد جہانگیر خان، آفتاب نبی، سید کمال شاہ شامل تھے۔ ملک کے دسویں صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے فرسودہ پولیس نظام کو بدلنے کیلئے 2002میں نیا پولیس آرڈر نافذ کر دیا تھا، جس کے بعد انسپکٹر جنرل آف پولیس کے عہدہ کو پراونشل پولیس آفیسر کا نام دیا گیا اور سید کمال شاہ پہلے پراونشل پولیس آفیسر سندھ تعینات کئے گئے۔ صوبائی پولیس سربراہ سید کمال شاہ کے بعد بلترتیب اسد جہانگیر، جہانگیر مرزا، نیاز احمد صدیقی، ضیاء الحسن خان، اظہر علی فاروقی، ڈاکٹر محمد شعیب سڈل، ایس ایس بابر خٹک، فیاض احمد لغاری، واجد علی خان درانی، مشتاق احمد شاہ، غلام شبیر شیخ، شاہد ندیم بلوچ، سکوارڈن لیڈر اقبال محمود، غلام حیدر جمالی، اللہ ڈینو خواجہ، امجد جاوید سلیمی، سید کلیم امام، مشتاق مہر، غلام نبی میمن آئی جی سندھ تعینات رہے جبکہ ان دنوں پولیس گروپ کے سینئر آفیسر راجہ رفعت مختار کو قائم مقام آئی جی سندھ بنایا گیاہے، سندھ پولیس کی فیلڈ فارمیشنز کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں کراچی ریجن، حیدرآباد ریجن اور سکھر ریجن شامل ہیں، کراچی ریجن سی آئی اے، ٹریفک پولیس، سیکیورٹی، فارنرز سیکیورٹی سیل اور کورٹس سیکیورٹی اور سپیشل برانچ پر مشتمل ہے۔ ہر زون، سی آئی اے اور ٹریفک پولیس کا سربراہ ایک ڈی آئی جی ہوتا ہے جبکہ اضلاع اور سیکیورٹی یونٹس کی سربراہی ایس ایس پی اور ایس ایس پی کرتے ہیں، اس کے علاوہ، انسداد دہشت گردی کا محکمہ، تفتیشی برانچ، اور خصوصی برانچ موجود ہے۔ ان میں سے کچھ یونٹ براہ راست آئی جی کو رپورٹ کرتے ہیں جبکہ دیگر پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کے ذریعے اسے رپورٹ کرتے ہیں، اس وقت سندھ پولیس کو وجود میں آئے تقریبا 180سال ہوگئے ہیں، بلاشبہ صدیوں پر محیط انسانی تاریخ کے دوران مختلف ناموں سے پولیس ہی معاشرے سے جرائم کے خاتمے، امن کے قیام اور قانون کی بالا دستی کیلئے اپنا کردار ادا کرتی چلی آرہی ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گہرائی ضرور پیدا ہوئی ہے تا ہم کوئی اور ادارہ اسکی جگہ نہیں لے سکا، ہاں البتہ سہولت کاری کیلئے ریاست کے مختلف ادارے، پولیس کی معاونت کی ذمہ داریاں ضرور نبھاتے ہیں، ارض پاک میں پولیس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا ہے یہ الگ بات ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اس قومی ادارے کو مناسب وسائل کی فراہمی ، قوانین میں تبدیلی، میرٹ کی بالادستی، تربیت کی مناسب سہولتیں، آزاد ی عمل اور پوسٹنگ اور ٹرانسفرز میں اشرافیہ اور برسر اقتدار طبقات سے وہ آزادی حاصل نہیں ہو سکی جو کسی بھی جمہوری اور فلاحی معاشرے کا طرہ امتیاز سمجھی جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button