Editorial

170ارب روپے کا منی بجٹ اور عوام

 

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے آرڈیننس جاری کرنے سے معذرت کے بعد گذشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کیا، جس کے تحت 170ارب روپے تک کے نئے ٹیکس عائد کئے گئے ہیں۔ یوں اب آئی ایم ایف کی اہم ترین شرط پوری ہونے کے بعد قرضہ پروگرام کے لیے سٹاف لیول معاہدہ ہونے کا بیان جاری کرنے میں آخری رکاوٹ بھی دور ہو جائے گی کیونکہ وفاقی کابینہ مالیاتی بل کی منظوری دے چکی ہے۔منی بجٹ میں کوکنگ آئل، گھی، بسکٹ،جام، جیلی، نوڈلز، کھلونے، چاکلیٹ، ٹافیاں،صابن، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ،شیونگ کریم،میک اپ، کریم، لوشن، ہیئر کلر ، پرفیوم ، برانڈڈ عطر پر بھی سیلز ٹیکس بڑھا کر17سے 18فیصد کردیا گیا ہے۔ منی بجٹ کے نتیجے میں موبائل فون، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ،گیجٹس،ٹی وی، ایل ای ڈیز، ایل سی ڈیز، فریج، واشنگ مشین، جوسر بلینڈرز اورفوڈ فیکٹریز سمیت الیکٹرونکس آئٹم بھی مہنگے ہوں گے اور منی بجٹ آنے سے پہلے ہی ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کی شرح میں ایک فی صد اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر کے سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کا فوری نفاذ کر دیا ہے۔ مزید برآں حکومت نے لگژری آئٹم پر سیلز ٹیکس 25 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔شادی ہالز کی تقریبات کے بلوں پر 10 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا، سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف جلد مالیاتی ضمنی بل پر قوم کو اعتماد میں لیں گے، وزیراعظم اور کابینہ اپنے اخراجات کو کم کرنے کا پلان دے گی۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا ہے کہ ابتدائی طور پر معاشی رفتار سست ہوگی مگر بعد میں چار فیصد تک جائے گی۔انہوں نے ادویات، پٹرولیم، سپورٹس کی ایل سی کھولنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے اور محصولات کا 170 ارب کا موجودہ اور پچھلا ٹارگٹ اِس منی بجٹ کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔ بلاشبہ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے 170ارب روپے کا منی بجٹ پیش کیا ہے تاکہ قرض کا حصول ممکن ہوسکے لیکن یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب وطن عزیزداخلی اور خارجی چیلنجز میں گھِرا ہوا ہے،بتدریج شرح سود میں اضافہ کیا جارہا ہے، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، اجناس کی قلت اور غیر مستقل قیمتیں اپنی جگہ چیلنج اور مہنگائی میں مزید اضافے کا باعث بنی ہوئی ہیں ، پھر عالمی اقتصادی سست روی اور عالمی سطح پر ناموافق ماحول اپنی جگہ موجود ہے، ریاستی رٹ ہر جگہ کمزوربلکہ ناکام نظر آرہی ہے، کاروباری ناموافق حالات کی وجہ سے بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، مگر اِن تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں واحد در آئی ایم ایف کا ہی نظر آرہا ہے کیونکہ ہم اپنے اندر تبدیلی لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، وگرنہ ہم اِن حالات سے قطعی دوچار نہ ہوتے۔ آئی ایم ایف کے حکم پر پچھلے دو روز میں بجلی اور گیس کی قیمت میں بڑا اضافہ کردیا گیا ہے جبکہ زیربحث منی بجٹ لانے کا اعلان
وزیر خزانہ کئی روز پہلے ہی کرچکے تھے، اگرچہ جناب نے موقف اختیار کیا ہے کہ اِس منی بجٹ سے غریب اور سفید پوش طبقہ متاثر نہیں ہوگا مگر جن اشیا کا ذکر منی بجٹ سناتے ہوئے کیاگیا ہے وہ تمام انہی پسے ہوئے طبقات کے استعمال کی ہیں لہٰذا بینظیر انکم سپورٹ کی رقم بڑھانے یا یوتھ کو لون دینے سے مہنگائی کا طوفان قطعی نہیں تھمے گا بلکہ ماہرین معیشت خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ پندرہ سے بیس فیصد تک مہنگائی میں اضافہ ہوگا کیونکہ ایک طرف منی بجٹ کے نتیجے میں مہنگائی کی لہر آئے گی تو دوسری طرف گیس، بجلی اور پٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے عام پاکستانیوںکی کمر ٹوٹے گی اور بلاشبہ اس کے منفی سیاسی اثرات اتحادی حکومت یعنی اتحادیوں کو سامنا کرنا پڑیں گے، کیونکہ ہر طرف ضمنی اور عام انتخابات کاشوروغوغا ہے، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے سیاسی کشمکش ہورہی ہے تو آیا اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ نون کے لیے ووٹرز کو مطمئن کرنا آسان ہوگا کہ اِس تاریخ ساز مہنگائی اور موجودہ معاشی حالات کے ذمہ دار وہ نہیں بلکہ سابقہ پی ٹی آئی حکومت ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر عام پاکستان کے استعمال کی اشیا پر دی جانے والی رعایت واپس لی جارہی ہے ایک تو اِس کا بوجھ عام پاکستانی پر پڑ رہا ہے تو دوسری طرف مرکز اور صوبوں کے درمیان جاری طویل سیاسی کشمکش کی وجہ سے انتظامی مشینری اپنے بنیادی کام پوری طرح انجام نہیں دے پارہی، اتحادی حکومت بری طرح اِس مسئلے میں پھنس چکی ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر معاشی اصلاحات کرتی ہے تو عوام کی عدالت میں سیاسی لحاظ سے نقصان اٹھاتی ہے، اگر اصلاحات نہیں کرتی تو ملک کے معاشی حالات قابو میں نہیں آتے، پس آگے کھائی، پیچھے سمندر کی مصداق اتحادی حکومت کے لیے بے شمار مشکلات ہیں جن کا موثر اور قابل تعریف بظاہر نظر نہیں آرہاکیونکہ ہم نے ماضی میں کوئی معاشی لائحہ عمل طے ہی نہیں کیا ہر آنے والی حکومت نے پچھلی حکومت کی معاشی پالیسیوں کو رد کرکے اپنی پالیسیاں دیں اور پھر قلیل مدت بعد ہی اِس کو گھرجانا پڑ گیا۔ وفاقی حکومت کے منی بجٹ کے عامۃ الناس پر ہولناک اثرات مرتب ہوں گے، مافیاز بھی اِس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے حرکت میں آجائیں گے، مگر حسب سابق ریاست اِن کا مقابلہ کرنے کے لیے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرلے گی، پس یہ حکمران جماعتوں اور حزب اختلاف دونوں کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے دانشمندانہ حکمت عملی اپنائیں کیونکہ معاشی فیصلوں کے حوالے سے نہ صرف موجودہ حکومت بلکہ اگلی حکومت کو اس سے بھی زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا ہوگا اور ایک بار پھر یہی دعویٰ کیا جائے گا کہ پچھلی حکومت کی بچھائی معاشی بارودی سرنگیں صاف کررہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button