Column

16دسمبر سانحہ اے پی ایس کی نویں برسی

ضیاء الحق سرحدی
میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے
بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے
پاکستان کی 76سالہ تاریخ مختلف حادثات و سانحات سے بھری پڑی ہے تاہم کچھ واقعات ایسی بھی ہیں جو ہم شاید کبھی بھلا نہ پائیں۔16دسمبر کا دن بھی تاریخ کے انہی واقعات میں سے ہے جہاں ایک طرف 1971ء میں دو لخت ہوئے پاکستان کا غم منایا جاتا تھا وہی سال 2014ء میں اسی روز ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔16دسمبر 2014ء کی صبح صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع آرمی پبلک سکول ( اے پی ایس) پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں نے حملہ کر دیا اور وہاں موجود طلبہ اور اساتذہ کو نہ صرف یرغمال بنایا بلکہ ان پر فائرنگ کرکے طلبہ سمیت 140سے زائد افراد کو شہید کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد پاک فوج کی جانب سے جاری آپریشن ضرب عضب کو مزید تیز کیا گیا تھا اور یہی نہیں بلکہ واقعے کے کچھ دن بعد ہی اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کا اعلان کیا تھا۔ نواز شریف نے 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان ( این اے پی) کا اعلان کیا تھا اور اس پر ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقات کے بعد اتفاق رائے ہوا تھا۔ حکومت نے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نہ صرف قومی لائحہ عمل ترتیب دیا تھا بلکہ دہشت گردوں کو سزائیں دلانے کے لیے ملک میں فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جب کہ سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد غیر اعلانیہ پابندی بھی اٹھالی گئی تھی۔ جہاں ایک طرف دہشت گردی کے خلاف موثر حکمت عملی مرتب کی گئی تھی وہیں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے شہید طلبہ و دیگر افراد کے لواحقین انصاف کے متلاشی تھے اور ان کا یہی مطالبہ تھا کہ ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ ابتدائی طور پر پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سانحے کی مختلف زاویوں سے تحقیقات کی تھی جسے 2016ء میں سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سامنے لانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بعد ازاں متاثرین نے انصاف کی فراہمی اور معاملے کی عدالتی تحقیقات کے لیے پشاور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا اور فروری 2018ء میں پشاور ہائی کورٹ نے سانحہ اے پی ایس میں خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو پولیس تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے کا حکم جاری کیا تھا۔ اپریل 2018ء آرمی پبلک سکول ( اے پی ایس) حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کو نوٹسز جاری کئے تھے۔ بعد ازاں بچوں کے والدین کی درخواست اور ان کی شکایات کے ازالے کے لیے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے پر ازخود نوٹس بھی لے لیا تھا۔ بعد ازاں5 اکتوبر 2018ء کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے سانحہ آرمی پبلک سکول کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا تحریری حکم جاری کر دیا تھا۔ جس کے بعد 14اکتوبر 2018ء کو پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں اے پی ایس سانحے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ جسٹس ابراہیم خان کی معاونت کے لیے 3دیگر افسران بھی کمیشن میں شامل تھے۔9جولائی 2020ء کو یہ بات سامنے آئی کہ سانحہ آرمی پبلک سکول کی تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے کمیشن نے اپنی کارروائی مکمل کرلی جس کی سربمہر رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرا دی گئی۔ اے پی ایس کمیشن کے ترجمان عمران اللہ نے بتایا تھا کہ سانحہ آرمی پبلک سکول انکوائری کمیشن نے سر بمہر رپورٹ سپریم کورٹ بھیج دی جو 3ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ بعد ازاں 4اگست 2020ء کو سانحہ اے پی ایس سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر اٹارنی جنرل کو حکومت سے ہدایت لینے کا حکم دیا تھا۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کسی بھی طرح سے 9؍11جیسے واقعے سے کم نہیں تھا، پشاور میں ہونے والا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جبکہ دنیا کا دوسرا بڑا واقعہ تھا۔ اس سانحہ میں 150سے زائد شہادتیں ہوئیں جس میں 133سے زائد ننھے ، پیارے اور معصوم پھول جیسے بچے شامل تھے جبکہ اس کے علاوہ 126طلباء زخمی بھی ہوئے تھے۔ اس بھیانک واقعہ میں 133طلباء اپنی زندگی کی بازی ہار گئے تھے جبکہ سٹاف کے 9ارکان بھی جام شہادت نوش کر گئے تھے جن میں ایک خاتون ٹیچر کے علاوہ سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی بھی شامل تھیں۔ پاک آرمی نے سات دہشتگردوں کو بھی ہلاک کر دیاتھا۔ دہشتگردی کی یہ خبر دوپہر کو جونہی اس دن ٹی وی چینلز پر نشر ہوئی تھی تو پورا ملک سوگوار ہوگیا تھا لیکن جن مائوں کی گودیں اجڑیں ، جن والدین کے لخت جگر ہمیشہ کیلئے جدا ہوئے جن بہنوں کے بھائی بچھڑے اور جو جو اس جان کنی کے مراحل سے گزرے اس کا دُکھ وہی جان سکتے ہیں۔ راقم چونکہ خود بھی پشاور کا باسی ہے اس لئے جب یہ دل ہلا دینے والی خبر کا پتہ چلا تو راقم سانحہ آرمی پبلک سکول کی جگہ پر پہنچا تو وہ رُلادینے
والے مناظر اب بھی نو سال گزر جانے کے باوجود مجھے یاد ہیں کیونکہ میں اس ماں کی تصویر کو کبھی نہیں بھلا سکتا جو یہ روح فرسا خبر سن کر اپنے بچے کی خبر گیری کیلئے دیوانہ وار سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ میں اس بوڑھے بزرگ کو بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتا جو اپنے خاندان کو گلے لگا کر شدید آہ و زاری کر رہا تھا۔ میں ہسپتال میں رکھی اس معصوم بچے کی لاش کو نہیں بھول سکتا جو عرش کی طرف منہ کر کے فریاد کر رہا تھا کہ یا اللہ ہمارا قصور کیا تھا اور ہمیں کس جرم میں اتنی بڑی سزا دی گئی۔ میں ان شہیدوں کو کبھی بھول نہیں سکتا۔ ان کا ایک ایک نام میرے دل و دماغ پر ثبت ہے، مجھے آرمی پبلک سکول کے عملے کے وہ قابل فخر 22ارکان اور پاک فوج کے تین اہل کار بھی یاد ہیں جو ملک و قوم کی بقاء اور سالمیت کے کام آئے۔ آئیے ان سب کو یاد کرتے ہیں۔ ان عظیم شہیدوں کی خوشبو اب بھی میرے اردگرد کی فضائوں کو معطر کئے ہوئے ہے۔ ان روشن چراغوں کو ہمیشہ کیلئے بجھا دیاتھا۔ کیا بگاڑا تھا ان ننھے پھولوں نے جو دہشت گردی کے مفہوم سے ہی نا آشنا تھے۔ ان کی مائوں نے صبح کتنے ارمانوں سے ان کو نیند سے بیدار کیا ہوگا۔ جلدی سے ان کی تیاری کرائی ہوگی کتنی چاہت سے بھاگم بھاگ ان کو ناشتہ دیا ہوگا اور پھر اس یخ بستہ سردی میں دل پر پتھر رکھ کر ان کو خدا حافظ کہا ہوگا مگر ان کو کیا معلوم تھا کہ آج وہ ان کو ہمیشہ کیلئے رخصت کر رہی ہیں اور پھر وہ ان کو کبھی دیکھ نہیں سکیں گی۔ یہ دسمبر کیسا تھا، کتنا ظالم اور بے نیاز، کتنا سنگدل اور بے حس کہ جس نے اپنی آنکھوں سے ننھی کلیوں کو مسلتا ہوا دیکھا، پھر بھی خاموش رہا۔ ان کلیوں کو کھل کر پھول تو بننے دیتا، یہ نوخیز کلیاں زندگی کی کچھ بہاریں تو دیکھ لیتیں مگر یہ خاموش تماشائی بنا رہا۔ اس دسمبر کے سامنے ، بالکل اس کی آنکھوں کے آگے ان ننھی منی کلیوں کا خون ہوا، سفاک قاتل خون اچھالتے رہے، مائوں کی گودیں اجاڑتے رہے، کئی گھرانوں کے آنگن ویران کرتے رہے، کئی روشن چراغوں کو بجھاتے رہے مگر یہ خاموش رہا، اے دسمبر تو کبھی نہیں بھولے گا ، تو تو مائوں کے کلیجے چیر کر نکل گیا ہے۔ مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ جو معصوم تیرے ہاتھوں میں شہید ہوئے ہیں، ان کے والدین کس کرب میں مبتلا ہیں۔ دسمبر تمہیں کیا بتائوں آرمی پبلک سکول کے ان شہید بچوں کے گھروں میں جھانک کر دیکھو گے نا تو تمہارا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں، ضرب عضب آپریشن نے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ۔ ’’ اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے‘‘۔ سابق جنرل راحیل شریف ! ہم آپ کے جذبو ں، جوش اور ولولہ کو سلام پیش کرتے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والا ہر فرد اپنے قابل فخر فوجی سپوتوں کے لیے ہر لمحہ دعا گو رہتا ہے۔ پوری قوم یہ یقین رکھتی ہے کہ ہمارے موجودہ آرمی چیف حافظ عاصم منیر احمد پاکستان میں بے گناہ لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے اس ملک کو جہنم بنا دیں گے، کیونکہ مقدس ساعتوں میں معروض وجود میں آنے والے اس ملک کا ہر دشمن اور اس کے سہولت کار کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لیے صرف اور صرف جہنم ہی ہے۔16دسمبر کو آرمی پبلک سکول کے واقعے کو نو سال ہو چکے ہیں، اس دن شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے صوبہ بھر میں سرکاری طور پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتاہے۔ ان تقریبات کے انعقاد میں پاک فوج بھی حکومت کے ساتھ شامل ہے۔ آرکائیوز لائبریری پشاور میں آرمی پبلک سکول کے شہدا کے نام سے منسوب ایک یادگار بھی تعمیر ہو چکلی ہے جس پر سانحہ پشاور میں جاں بحق ہونے والے تمام بچوں کے تصویریں لگائی گئی ہیں۔ صوبے کے تقریباً 127سرکاری سکولوں کے ناموں کو شہید بچوں کے نامو ں سے منسوب کیا گیا ہے۔ پشاور کی معروف شاہراہوں اور چوکوں کو ان شہید بچوں کا نام دیا گیا ہے جبکہ آرمی پبلک سکول پر حملے میں ملوث چار مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا جا چکا ہے، چاروں مجرم پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے میں ملوث تھے۔ پاکستان آرمی اور پولیس نے بے پناہ کوششوں کے بعد ان مجرموں کو گرفتار کیا تھا، دوران تفتیش ان پر جرم ثابت ہوا تھا جس کے بعد فوجی عدالت نے انہیں موت کی سزا سنائی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button