ColumnImtiaz Aasi

انتخابات سے پہلے

امتیاز عاصی
نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی یقین دہانی کے باوجود منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی امید کم ہے۔ انتخابات شفاف نہ ہوئے تو عوام اور دنیا کیا ہمارے الیکشن کو تسلیم کرے گی؟ گو اس کا جواب تو آنے والے وقت میں ملے گا تاہم حالات اور واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت اور الیکشن کمیشن نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے کہیں اللہ نہ کرے ہمارا ملک پھر کسی بحران کا شکار نہ ہوجائے۔ ہم کسی ایک سیاسی جماعت کی بات نہیں کرتے انتخابات سے پہلے جو حالات پیدا کئے جا رہے ہیں ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں حکومت اور الیکشن کمیشن کا جھکاو کس طرف ہے۔ ایک صاحب جن کی نااہلی ابھی تک برقرار ہے وہ کاغذات نامزدگی جمع کرا رہے ہیں دوسری طرف جن کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے انہیں کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روکا جانا الیکشن میں وسیع پیمانے پر مبینہ طور پر دھاندلی کی طرف پیش رفت ہے۔ کسی جماعت کو انتخابات سے باہر رکھنا مقصود ہو اس پر پابندی عائد کر دی جائے جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ولی خان کی جماعت پر پابندی لگائی وہ دوسرے نام سے میدان میں آگئی۔ یہ علیحدہ بات ہے کسی جماعت نے حساس جگہوں کو نشانہ بنایا تو اس کی سزا ملک کے تمام لوگوں کو نہیں ملنی چاہیے ۔ سیاسی جماعتیں آئین اور قانون کی بات کرتی ہیں حیرت ہے سیاسی رہنمائوں کو ایک مخصوص جماعت کے انتخابی امیدواروں سے امتیازی سلوک دکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ وہ تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں جو کسی حالت میں ملکی مفاد میں نہیں ۔ جو جماعتیں عوام کا راستہ روکنے پر چپ سادھے ہوئے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کل ان کی باری آنے والی ہے۔ سیاسی جماعتوں سے انتخابی نشان کی واپسی، سیاسی رہنمائوں کی گرفتاری کے بعد رہائی پر دوبارہ گرفتاریاں اور پریس کانفرنس وغیرہ تمام اقدامات غیر منصفانہ انتخابات کی طرف پیش رفت نہیں تو اور کیا ہے؟۔ ملک کی سیاسی تاریخ گواہ ہے انتخابات سے قبل ایسا ماحول کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا جس طرح کا ماحول آج کل بنا ہوا ہے۔یہ اور بات ہے بھٹو دور میں الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی تاہم ان کے دور میں انتخابات سے پہلے اس طرح کا ماحول نہیں تھا جوان دنوں ہے۔ سچ تو یہ ہے عوام کا سیاسی رہنمائوں پر اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے سیاست دانوں نے ملک اور عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی تجوریاں بھرنے پر توجہ دی جس کے نتیجہ میں ہمارا ملک معاشی لحاظ سے برباد ہو چکا ہے یہی وجہ ہے عوام روایتی سیاست دانوں کے چہرے دیکھ دیکھ کر عاجز آچکے ہیں ۔ قانون سے کوئی مبرا نہیں کوئی جرم کرتا ہے اسے سزا ضرور ملنی چاہیے ۔ جب تک چھوٹے اور بڑے کو ایک نظر سے نہیں دیکھا جائے گا ملک میں انصاف کا بول بھالا نہیں ہو گا۔ قرون اولیٰ کے دور میں یہی کچھ ہوتا رہا کوئی بڑا جرم کرتا اسے چھوڑ دیا جاتا اور چھوٹا آدمی جرم کرتا اسے سزا دی جاتی ۔ وہ معاشرے کبھی ترقی نہیں کر سکتے جہاں چھوٹے اور بڑوں کوایک نظر سے نہ دیکھا جائے۔ مغربی دنیا ترقی کے معاملے میں ہم سے کیوں آگے ہے وہاں سب سے برابری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہم مسلمانوں کی بدقسمتی دیکھئے جو کام ہمیں کرنے چاہیں وہ غیر مسلموں نے اپنا رکھے ہیں۔ انصاف ان کے ہاں ہے۔ ملاوٹ اور دھوکہ دہی سے وہ دور ہیں مہنگائی کو دیکھ لیں وہ تہواروں کے موقع پر ضروریات زندگی ارزاں قیمتوں پر فروخت کرتے ہیں جب کہ مسلمان ملاوٹ میں سب سے آگے ہیں۔ دھوکہ دہی ہمارا روزمرہ کا معمول ہے۔ مہنگائی میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ عجیب تماشا ہے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں ضمانت ملی تو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا کسی کیس میں تفتیش باقی تھی جیل میں رکھے بغیر تفتیش ممکن نہیں؟ پی ٹی آئی کا کوئی رہنما ایسا نہیں جس کے خلاف کوئی مقدمہ نہ بنا یا گیا ہو۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے عوام باشعور اور بیدار ہو چکے ہیں ۔ وہ روایتی سیاست دانوں کے جھوٹے وعدوں پر
اعتبار کرنے کو تیار نہیں عوام سیاسی رہنمائوں کے جھوٹ سن سن کر تنگ آچکے ہیں جس کا بدلہ وہ آنے والے انتخابات میں ضرور لیں گے۔ ملک میں جس طرح کو ماحول پروان چڑھا ہے شفاف انتخابات کی امید کم ہے۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں لوگوں نے اپنے ووٹ پر جیسے پہرہ دیا تھا آنے والے الیکشن میں عوام نے اپنے ووٹ کی حفاظت کی تو کسی کو دھاندلی کرنے کی جرات نہیں ہو گی۔ عوام جہاں اپنے پسندیدہ نمائندوں کو ووٹ دیں گے وہاں ان پر یہ ذمہ داری ہے وہ اپنے ووٹ کی بھرپور حفاظت کریں ۔ عوام ماضی کی طرح سوئے رہے تو انہیں ایک مرتبہ پھر روایتی سیاست دانوں کے چنگل میں پھنسا دیا جائے گا۔ بھٹو دور میں ہونے والی دھاندلی ہمیں یاد ہے ایک رکن اسمبلی نے اس ناچیز کے سامنے پولنگ بوتھ میں کئی سو ووٹوں کا پلندہ بیک وقت ڈالا۔ ان انتخابات کا جو حال ہوا پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ بھٹو دوبارہ الیکشن کرانے پر رضامند تھے کہ مارشل لاء نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جس کے بعد جو ہوا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ گو الیکشن کمیشن نے انتخابی عملہ کی تربیت او دیگر انتظامات مکمل کر لئے ہیں۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان اور کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے باوجود سیاسی گہماگہمی دکھائی نہیں دے رہی ہے جو اس امر کی عکاس ہے عوام اور سیاسی ورکروں کو الیکشن کے انعقاد کا یقین نہیں آرہا ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں ووٹ کی خاطر عوام کو مفت بجلی اور نوکریوں کا چکمہ دے کر اپنی طرف راغب کرنے کی ناکام کوشش میں ہیں۔ بھلا سوچنے کی بات ہے پاکستان جیسا غریب ملک عوام کو مفت بجلی فراہم کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے ؟ عوام پر منحصر ہے وہ اپنے ووٹ کی حفاظت کے ساتھ راست باز قیادت لانے میں کس حد تک سنجیدہ ہیں جس کا بہت جلد علم ہو جائے گا۔ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے اللہ نہ کرے ہمارا ملک پھر سے معاشی اور سیاسی بحران کا شکار نہ ہوجائے جس کا ازالہ ممکن نہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button