Editorial

فلسطین: اسرائیلی حملوں میں 4300سے زائد شہادتیں

فلسطین اس وقت دُنیا کا مظلوم ترین خطہ ہے اور اسرائیلی ظالم اور سفّاک ترین ملک، 15روز کے دوران 4300سے زائد فلسطینی مسلمانوں کو وحشیانہ حملوں میں شہید کر چکا، جس میں 1500بچے بھی شامل ہیں، عورتوں کی بھی بڑی تعداد ہے، مفادات کی دُنیا اسرائیل کو ہی مظلوم ٹھہرا رہی ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان نئی جنگ کے آغاز کو دو ہفتے سے زائد وقت بیت چکا ہے، حماس کے اسرائیل پر پانچ ہزار راکٹ فائر کرنے سے اس لڑائی کا آغاز ہوا، فلسطینی آخر کب تک اسرائیلی مظالم کو جھیلتے، وہ نصف صدی سے زائد عرصے سے اسرائیلی کے بدترین ظلم و ستم، سفّاکیت، درندگی کا سامنا کر رہے ہیں، اس دوران لاتعداد مسلمان جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں، اُن پر مظالم میں کمی آنے کے بجائے وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، مسلمانوں کے قبلہ اوّل کے تقدس کی بارہا پامالی اسرائیلی فوج کا وتیرہ ہے۔ ظلم کے سلسلے دراز ہیں۔ فلسطینی مسلمان بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ عرصہ حیات تنگ ہیں۔ پابندیاں در پابندیاں ہیں۔ جینا محال ہے اور مظلوموں کا بُرا حال ہے۔ آخر کب تک وہ اسرائیلی مظالم کو یوں ہی جھیلتے رہتے۔ ظلم تمام حدیں عبور کرچکا تھا۔ اس کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونا لازمی تھا، سو حماس نے یہ جسارت کر ڈالی اور طاقتور ترین غاصب کے خلاف عَلَم بغاوت بلند کردیا۔ حماس کے حملوں میں دو ہزار اسرائیلیوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو غاصب ظالم ہے اور بااثر۔ عالمی ٹھیکے داروں کا چہیتا ہونے کی ناتے اس کے خلاف کوئی لب کُشائی کی جرأت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم اور سفّاک اسرائیل، جس نے فلسطین میں اسپتال تک پر حملہ کرکے 800 افراد کو شہید کیا، اُس کی امریکی صدر جوبائیڈن ناصرف پیٹھ تھپتھپاتے دِکھائی دیتے ہیں بلکہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ حملہ اسرائیل نے نہیں کسی فلسطینی گروپ نے کیا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی یہ بھونڈی منطق پیش کرچکا ہے۔ اس ظالم کا مغرب گرویدہ اور کاسہ لیس بنا ہوا ہے۔ 58اسلامی ممالک بھی ان کے خلاف کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ اقوام متحدہ بھی اسرائیل کے اسپتالوں، اسکولوں اور اقوام متحدہ کے مراکز پر حملوں کی ناصرف مذمت کررہی بلکہ اسرائیل کو اس سے باز رہنے کا بھی کہہ رہی ہے، لیکن کیا اُس نے اس پر ذرا بھی عمل کیا۔ اُس کے حملوں میں کمی آئی۔ وہ تو اب بھی اسپتالوں، عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنارہا ہے۔ اس ضمن میں آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے شہری آبادیوں، اسپتالوں اور عبادت گاہوں کو بھی نہ بخشا، غزہ کے قدیم ترین گرجا گھر پر بھی بم باری کردی، حملے کے نتیجے میں چرچ میں پناہ لینے والے 10فلسطینی شہید ہوگئے۔ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت سے 15سو سے زائد بچوں سمیت شہدا کی مجموعی تعداد 4ہزار 300سے تجاوز کر گئی جبکہ اب تک قریباً 14ہزار شہری زخمی ہوچکے ہیں۔ غزہ پٹی پر اسرائیلی بم باری میں 30فیصد سے زیادہ مکانات تباہ ہوچکے، اسرائیلی سفّاکیت کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد بھی 10لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ اسرائیل افواج کی جانب سے شیبا فارمز سے متصل جنوبی لبنان پر بھی گولا باری کی گئی جب کہ امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم کی حمایت ملنے کے بعد کسی بھی وقت غزہ پر اسرائیلی فوج کے زمینی حملے کا بھی اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے سبب تنازع علاقائی جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے اور اس صورت میں یہ اسرائیل اور اس کے حامیوں کے قابو سے باہر ہوجائے گا۔ دوسری جانب مصر سے غزہ کی رفاح کراسنگ کھل گئی، غزہ میں محصور فلسطینیوں کے لیے امدادی ٹرکوں کے پہنچنے کا آغاز ہوگیا۔ ادھر غزہ کے اسپتالوں میں بجلی غائب ہے جب کہ ایندھن ختم ہونے پر جنریٹر بھی بند ہوگئے، اسپتالوں کا عملہ موبائل فون کی ٹارچ کی روشنی میں آپریشن کرنے پر مجبور ہوگیا۔ خان یونس کے اسپتال کے ڈاکٹر نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، اسپتال میں کوئی آئی سی یو بیڈز موجود نہیں، مزید جانیں نہیں بچائی جا سکتیں۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ مزید بچوں، خواتین کو بغیر کسی طبی امداد کے موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فلسطین میں سسکتی انسانیت کے نوحے جابجا بکھرے پڑے ہیں جو نام نہاد انسانیت کے علمبرداروں کو منہ چڑا رہے ہیں۔ کوئی ہے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا اور ظالم، سفّاک اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُسے ظلم سے باز رکھنے کی سختی سے تاکید کرنے والا کوئی نہیں۔ بس بیان بازیاں ہیں اور اس سے آگے کچھ نہیں۔ وہاں مظلوم فلسطینی بڑی تعداد میں جام شہادت نوش کررہے ہیں اور مفادات کے پُجاری اسرائیل کو ہی مظلوم قرار دے رہے ہیں، کیونکہ اسرائیل معیشت کے حوالے سے دُنیا میں سب سے طاقتور ہے اور اُس سے بہت سے ممالک، اداروں کے مفادات وابستہ ہیں، جن کو زک پہنچانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ امریکی اور برطانوی آشیرواد اُسے حاصل ہے۔ اس کے علاوہ پورا مغرب اُس کی ہمنوائی کے لیے کمربستہ ہے۔ ظالم کو ظالم کہنے والا کوئی نہیں۔ اسلامی ممالک اور اُن کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کو مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم رُکوانے کے لیے اپنا مزید موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے سخت موقف اختیار کیا جائے کہ اب پانی سر سے بہت اونچا ہوچکا ہے۔ بہرحال ظلم آخر ظلم ہے، ایک روز اسے مٹ ہی جانا ہے۔ اسرائیل کے مظالم کا سلسلہ بھی جلد انقطاع سے دوچار ہوگا۔ فلسطینی مسلمانوں کی آزادی اور خودمختاری کا خواب جلد شرمندہ تعبیر ہوگا۔ اللہ مظلوموں کے ساتھ ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کی جدوجہد ایک روز ضرور رنگ لائے گی اور اُنہیں اسرائیلی تسلط سے آزادی نصیب ہوگی۔ وہ دن جلد آئے گا۔
اشیاء ضروریہ کب سستی ہوں گی؟
مہنگائی کا عفریت آئے روز عوام کے لیے سوہان روح ثابت ہوتا ہے۔ روز بروز بڑھتی گرانی کے سبب اُن کے لیے زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جارہی ہے، جس شے کو دیکھو اُس کی قیمت آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہے۔ اس باعث عوام کے لیے سنگین مشکل یہ ہوتی ہے کہ اُن کی آمدنی میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوتا، لیکن ہر ماہ اُن کے گھریلو اخراجات ضرور بڑھ جاتے ہیں۔ گرانی کی وجہ سے کتنے ہی گھرانے فاقوں پر مجبور ہیں، جہاں ایک وقت کھانا پکتا ہے تو پھر اگلے کئی اوقات فاقوں کا ڈیرا رہتا ہے۔ گراں فروشوں اور منافع خوروں کے گرد گھیرا تنگ نہیں کیا جاتا اور وہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مشغول رہتے ہیں۔ ملک بھر میں مہنگائی کی روک تھام اور مقرر کردہ حکومتی نرخوں پر اشیائے ضروریہ کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے ادارے ضرور موجود ہیں، لیکن اُس کے ذمے داران اپنے فرائض سے غفلت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ایسے تو مہنگائی کے عفریت کو بالکل بھی قابو نہیں کیا جاسکتا، پھر عوام جائیں تو کہاں جائیں؟ یہ سوال جواب کا متقاضی ہے۔ نگراں حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ ملک بھر میں کارروائیاں جاری ہیں۔ بڑی مقدار میں گندم، چینی اور دیگر اشیاء ان سے برآمد کی جارہی ہیں۔ اربوں مالیت کی اشیاء پکڑی جاچکی ہیں۔ ڈالر کے نرخ بھی تسلسل سے گر رہے ہیں۔ اس کے باوجود آٹا اور چینی کے نرخوں میں کمی نہیں آسکی ہے۔ گراں فروش عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مشغول ہیں۔ دردمند دل رکھنے والے حکمراں اپنے عوام کے مفاد کو اولیت دیتے ہیں، لہٰذا وسیع تر عوامی مفاد میں مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنا ازحد ضروری ہے۔ بڑھتی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے راست اقدامات کیے جائیں۔ آٹا اور چینی کے دام مناسب سطح پر واپس لائے جائیں۔ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے بعد اس حوالے سے ثمرات عوام تک صحیح معنوں میں منتقل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ دوسری جانب ملک بھر میں گرانی کے تدارک کے لیے حکمت عملی ترتیب دی جائے، ذمے داران روزانہ کی بنیاد پر بازاروں کے دورے کریں، منافع خوروں اور گراں فروشوں کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے اور ان کارروائیوں کو اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آجاتا۔ اس حوالے سے درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم ناصرف مثبت نتائج کے حامل ہوں گے بلکہ اس سے عوام کی خاصی حد تک اشک شوئی بھی ہوسکے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button