Abdul Hanan Raja.Column

نامناسب روئیے، معاشی سونڈیاں اور سپہ سالار

عبد الحنان راجہ

اعتدال، میانہ روی اور پالیسیوں کا تسلسل ریاست کا تجارتی وجود برقرار رکھنے کے لیے ضروری. ملک مقروض اور دیوالیہ کے قریب، مگر ہمارے اخراجات اتنے شاہانہ کہ برطانیہ، جرمنی، جاپان، ناروے بلکہ امریکہ تک ہمارے حکمرانوں کے طمطراق و کروفر کے چرچے، کہ معاشی و صنعتی میدان میں سپرپاورز ہونے کے باوجود وہاں کے حکمرانوں کو عوامی وسائل پر ایک حد تک بھی عیاشی کی اجازت نہیں۔ پاکستان کے معاشی حالات اور درپیش چیلنجز پر نوجوان سکالر ڈاکٹر حسین محی الدین کہ جن کے مقالہ جات دنیا کے مختلف جریدوں میں شائع اور وہ عالمی سطح پر ہونے والے سیمنارز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اپنی کتاب کہ غالباً جو اب تک چھپ چکی ہو گی اور محترم شہزاد رسول اس بارے آگاہی دے سکتے ہیں، میں فوری اور عملی حل تجویز کئے ہیں۔ ڈاکٹر حسن محی الدین نے ملائشیا، کوریا، سنگاپور اور ایران کی طرز پر قومی اکنامک کونسل کے قیام کی تجویز پیش کی ( جو گزشتہ دنوں قائم بھی ہو گئی)۔ یہ کونسل اقتصادی معاملات میں آزاد اور خود مختار اور اس کی پیش کردہ معاشی پالیسیوں کا تسلسل قائم رہے اور حکومتوں کی تبدیلی ان پر اثر انداز نہ ہو اور طاقتور ادارے اس کے ضامن۔ کونسل ایک سالہ، پانچ سالہ اور پچیس سالہ معاشی پروگرام ترتیب دے۔ انہوں نے فوری طور پر کرنے کے تین اقدامات تجویز کئے، اولا نوجوانوں اور نجی سطح پر قائم سافٹ ویئر ہائوسز کی تربیت اور آئی ٹی کی برآمدات حکومتی سطح پر منظم طریق سے کر کے محض ایک سال کے اندر قرض کے لیے بے چینی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی آئی ٹی برآمدات کا حجم 287بلین ڈالرز اور 32ہزار سے زائد سافٹ وئیر ہائوسز جبکہ ہمارے ہاں صرف دو ہزار اور وہ بھی غیر منظم۔ اس شعبہ پر توجہ سے مختصر ترین وقت میں بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ دوئم معدنی وسائل کو بروئے کار لا کر ہر سال برآمدات کی مد میں بلین ڈالر کمائے جا سکتے ہیں۔ سونے، تانبا، کوئلے، نمک کے بے پناہ ذخائر کہ پاکستان قرضہ جات کے بوجھ سے آزاد ہو سکتا ہے. ۔ ڈاکٹر حسن کے پیش کردہ معاشی خاکے کا تیسرا اور اہم شعبہ زراعت کہ اس شعبہ کو جدید خطوط پر استوار اور کسانوں کی تربیت کر کے بے پناہ وسائل کا حصول ممکن ہے۔ صرف کاٹن انڈسٹری کا فروغ ہی ہمارے معاشی مسائل کا حل ہو سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کاٹن پیدا نہیں کرتا مگر خطہ کا سب سے بڑا ٹیکسٹائل ایکسپورٹر، مگر ہم گندم اور دالیں بھی درآمد پر مجبور۔ میری دانست میں اب اس پر آرمی چیف کا پیش کردہ خاکہ کو اگر سرخ فیتے اور بددیانتی کی نذر نہ کیا گیا تو ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں. نوجوان سکالر کے مطابق یہ سب کچھ ممکن مگر اس سے قبل ہمیں قومی بالخصوص حکومتی و بیوروکریسی کی سطح پر سادگی، میانہ روی، اور پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہے.۔ امن و امان کا قیام کہ سازگار ماحول ہی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ انکی سرمایہ کاری اور کاروباری مفادات کی حفاظت ریاست کے ذمہ تاکہ وہ آزادانہ ماحول میں اپنی کاروباری سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں۔ غربت کے خاتمہ کے لیے ڈاکٹر حسن یہ تجویز بھی صائب مگر قابل عمل کہ حکومت اور امیر طبقات روزانہ یا ماہانہ بنیادوں پر بھیک دینے کی بجائے ان کو ہنر مند بنانے کی ذمہ داری لیں۔ انہوں نے اس کا حل اعداد و شمار سے بیان کیا کہ حکومت اس کے لیے دستیاب وسائل جو انکم سپورٹ کی صورت میں اور نجی شعبہ بشمول این جی اوز کے وسائل کو یکجا اور مربوط کر کے غربت و بے روزگاری کا خاتمہ ممکن اور اس کے اثرات پہلے ماہ سے ہی آنا شروع ہو سکتے ہیں۔ اس سے پاکستان نہ صرف ہنر مند افرادی قوت میں خود کفیل بلکہ دیگر ممالک ھم سے ہنر مندوں کی مانگ پر مجبور یوں گے۔ راقم کے خیال میں این جی اوز، نجی شعبہ کے نمائندگان، ٹیوٹا، سمال انڈسٹریز اور انکم سپورٹ کے نمائندگان پر مشتمل ایڈوائزری کونسل دیانت داری اور ملی جذبہ کے تحت ’’ ہنر مند پاکستان‘‘ پراجیکٹ کی ذمہ داری لے۔ یہ درست کہ معاشی معاملات میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا براہ راست تعلق نہیں، مگر ماضی قریب میں اس کے علاوہ خارجہ و داخلہ کے امور بھی وہ نبٹاتے رہے، اور اب گزشتہ ایک سال سے تجربہ کاروں کے ہاتھوں معیشت اور عام شہری کی بنتی درگت دیکھ کر انہیں پھر میدان عمل میں آنا پڑا۔ بچی کھچی اپوزیشن اگرچہ اس پہ چیں بہ جبیں، اور انکی بات ایک حد تک درست، مگر جس طرح انکے دور حکومت میں قرضہ جات اور امداد براہ راست اسٹیبلشمنٹ کی گارنٹی سے ہی ملتی تھی، تو اب یہ حاجت بوجوہ دوچند ہو گئی۔ بہر حال سپہ سالار کا ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے پروگرام کا عملی حصہ بننا وقتی لحاظ سے خوش آئند اور شاید گزشتہ ایک سال سے حسن محی الدین کی پیش کردہ تجاویز پر عمل کا وقت ان پہنچا، مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک میں ہر طبقہ وہ سیاسی ہو ہا مذہبی، قانون دان ہوں یا سرکاری ملازمین، طلبا ہوں یا اساتذہ، تاجران ہوں یا سرمایہ دار کسی نہ کسی صورت احتجاج پہ، اور جو طبقہ جب چاہے سڑکیں بلاک کرے یا ہڑتال اسے کھلی آزادی، امن و امان کی صورت حال مخدوش نہیں تو تسلی بخش بھی قرار نہیں دی جا سکتی، جہاں اپنے ملک کے سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور دیانت دار تاجران پر ٹیکس وصول کرنے والوں نے ہی عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہو، اپنے رویوں، رشوت، غیر ضروری اور بلاجواز ٹیکسسز کی صورت میں، جہاں مٹی کو سونا بنانے والے ہاتھ دو وقت کی روٹی اور علاج کو ترسیں، جہاں ملک کا ہر محکمہ بدعنوانی کے چنگل میں، انصاف برائے فروخت اور قانون کی گرفت کمزوروں پر، جہاں کامیابی اور کاروبار کا ہر دروازہ رشوت سے چابی سے کھلتا اور عہدے سفارش کے محتاج ہوں. جس ملک کے محکمے اور وہاں بیٹھے اہل کار اپنے روایتی حربوں سے سرمایہ کاری کو شجرہ ممنوعہ بنانے پر تلے ہوں، جہاں اشیا کی درآمد اور برآمد نذرانوں کی محتاج، جہاں کے نظام انصاف میں کروڑوں، اربوں کے سرمایہ کار جھوٹی درخواست کی مار، جہاں کئی کئی سال سرمایہ کاروں اور تاجروں کی جائز اپیلیں سنی جاتی ہوں اور نہ فیصلے آتے ہوں۔ ( اگرچہ پی ٹی آئی حکومت نے اس ضمن میں بہت اہم اقدام کہ کاروباری مقدمات کے فیصلوں کی مدت کا تعین کر دیا، اس پہ عمل کی نوبت آئی کہ نہیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں)۔ تو عشروں سے بگڑی عادات اور نظام کو درست کرنے سے قبل بیرونی سرمایہ کاری کی دعوت !!!! کہ اس پہ پیش گوئی کہیں بدگمانی کے زمرہ میں نہ آ جائے، مگر حقَائق یہی ہیں جو بیان کئے۔ محترم سپہ سالار اس ملک میں سرمایہ کی کمی ہے نہ سرمایہ کاروں کی، مٹی بھی زرخیر اور ذہین دماغ کی صورت میں نم بھی موجود کہ ’’ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ‘‘ اگر کمی ہے تو بس دیانت کی اور دیانت داروں کی، عدل کی اور انصاف کی، اخلاص کی اور سچے جذبوں کی۔ جناب سپہ سالار ! عملی اقدامات سے قبل مذکورہ بالا مسائل کو جڑ سے ختم کرنا ہے تاکہ رشوت، سرخ فیتہ، عدم انصاف اور ناروا رویوں کی سونڈیاں نئی بوئی جانے والی فصل پر حملہ آور نہ ہو سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button